ڈاکٹر کی ڈائری ,گندھارا میں دل ہارا
"خانپور کا وین ڈیم”۔۔۔ سفر نامہ
تحریر ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسد امتیاز ابو فاطمہ
خان پور ڈیم سے واپسی پہ ٹیکسلا پہنچتے ہی سڑک کنارے بٹ صاحب کو جا بجا بٹّ ہی بٹ نظر آئے
پریشان نہ ہوں میرا مطلب تھا سِل بَٹے۔۔۔
دوؔوری بھی کہتے ہیں اسے شاید کسی پتھر دل کی طرح اتنا سخت کہ جو بھی جائے پیس کے رکھ دے۔۔۔
پتھر کے خدا پتھر کے صنم پتھر کے ہی انساں پائے ہیںتم شہر محبت کہتے ہو ہم جان بچا کر آئے ہیں۔۔۔
خیر سڑک کنارے رکھی ٹیکسلا کی مٹی اور پتھر کی کاریگری ایک نظر دیکھ کر ہی گاڑی روکنا پڑ گئی ۔۔
انتہائی خوبصورتی سے ڈیزائن ہوئے گملے،پرندوں کے دانہ پانی و گھر اور مٹی کے برتن بشمول ہانڈیاں ۔۔
میں explorer تو نہیں ہوں لیکن اب تجسس ضرور رکھتا ہوں سو باتوں باتوں میں دکاندار بھائی سے ان سب چیزوں کی ہِسٹری پوچھنے لگا تو وہ کہنے لگے آپ نے ہِسٹری دیکھنی ہے تو واپس جا کر پچھلے چوک سے گاڑی رائٹ پہ ڈال دیں،اللہ شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے،میں نے فوراً گاڑی دو ہزار سال واپس موڑی اور انتہائی سیرین راستے سے گزرتے پہنچ گیا گندھارا تہزیب میں واقع دنیا کی قدیم یونیورسٹی جولیاں یونیورسٹی,تقریباً سو سے زائد سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہاڑ پہ جانا تھا گو راستے میں ریسٹ ڈیسک بنے تھے سانس لینے کو خوبصورت ویو کیساتھ ۔۔کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ چاہے جتنے مرضی ایتھلیٹ ہوں لیکن سیڑھیاں چڑھتے سانس پھولنا ہی پھولنا ہوتا ہے،اس عمل کو
Exertional intolerance
کہتے ہیں کیوں کہ ہمارے سانس کے مسلز ٹھنڈے ہوتے ہیں اور اتنی تیزی سے وارم اپ نہیں ہو پاتے اور دل کی دھڑکن بھی سلو ہوتی ہے،جو کہ سیڑھیاں چڑھتے ہی تیز ہو جاتی ہے،آپ کی باڈی اس تیزی کے عمل کیلئے پوری طرح تیار نہیں ہو پاتی
خیر چونکہ میں نے تو کمانڈو ٹریننگ لے رکھی تھی اور ویسے بھی من جھلی بیگم ساتھ تھی تو بھرم تو رکھنا ہوتا ہے ورنہ لوگ “بابا جی” سمجھ لیتے ہیں، اس لئے پائی ٹاپو ٹاپ،او پیا جاندا ای۔۔۔
اوپر پہنچتے ہی سب سے پہلے تو انتہائ بوجھل ضمیر کیساتھ “یہاں فوٹو گرافی منع ہے” کی فوٹو لی ۔۔۔
کیوں جی کیا مسئلہ ہے ۔۔! ہر کوئی نہیں بھی پہنچ سکتا تو اگر کسی comforter کو گھر بیٹھے ہی تصویری و تحریری سیر کرا دی جاوے تو تیرا کیا جاوے ہے۔۔
پتا نہیں میرا چہرہ ابن بطوطہ ٹائپ ہو گیا ہے یا معزز کہ وہاں کا مہتمم سب کو چھوڑ کر سیدھا میری طرف متوجہ ہوا اور بطور گائیڈ قدیمی درسگاہ کا مطالعاتی دورہ کروایا،بلکہ وہ تالے بھی کھولے جو بقول شخصے صرف بیرون ممالک سے آئے خاص مہمانوں کیلئے کھولے جاتے تھے جنہیں “اسٹوپا” یعنی بُدھ اِزم کی خانقاہ کہا جاتا ہے جہاں عموماً بدھ اِزم کے بانی گوتم بدھ کے حالت وجدان و نروان کی ریاضت کرتے مُجسمے رکھے جاتے..
وسیع صحن(جو کہ کبھی تالاب تھا)کے اردگرد طلبا کیلئے بنے ہوسٹل کے کمرے دیکھ مجھے اپنا ہوسٹل روم اور روم میٹ زاہد حسین یاد آگیا،سوچ کے ہی جُھرجھری آگئی کہ میں ایک لڑکے کیساتھ ایک کمرے میں پانچ سال رہتا رہا(شکر ہے کہ میں ایسا ویسا لڑکا نہیں تھا)
گائیڈ نے بتایا کہ اس دور میں بھی فن تعمیر کے اصولوں کو ملحوظ رکھا گیا تھا اور زلزلہ پروف بلڈنگ بنائی بنانے والوں نے،بڑے پتھروں کے درمیان چھوٹے پتھروں کی لیئرز رکھ کر کہ زلزلہ آئے تو چھوٹے پتھر کھسکیں بڑے نہیں،اور روشن دان سلوپنگ بنائے جاتے کہ روشنی اور ہوا نیچے تک پہنچے اور تو اور گائیڈ نے شرماتے ہوئے بتایا کہ ایک لومیرج ہال بھی ہے جہاں نئے بندھن میں بندھے جوڑے رقص کرتے(میں نے کن اکھیوں سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا ارینج میرج ہال کا کوئی زکر ای نہیں،چلووو۔۔نہ یہ تھی ہماری قسمت کہ۔۔۔)
بُدھ مت کا بانی سدھارتھا گوتم قریباً 600 سال قبل از مسیح میں نیپال کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ جیسا کہ اُسکی کہانی بیان کرتی ہے وہ کسی حد تک بیرونی دُنیا سے انجان عیش و عشرت بھری زندگی بسر کررہا تھا ۔ اُس کے والدین کا مقصد اُسے مذہب کے اثر سے بچانا اور اُسے دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاہم زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اُس کی آرام گاہ میں چھید ہو گیا اور اُس نے ایک عمر رسیدہ شخص، ایک بیمار شخص اور ایک لاش کے مناظر دیکھے ۔ چوتھے منظر میں اُس نے ایک پُرامن صوفی درویش(جو عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کو چھوڑ دیتا ہے) کو دیکھا ۔ درویش کی پُر امن حالت کو دیکھ کر اُس نے بھی درویش بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے خودضبطی/ نفس کشی کے عمل کے وسیلے سے روشن خیالی کی تلاش کے لئےمال ودولت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔۔۔
میں سوچنے لگا کہ انسان اگر اپنے اندر (فطرت) کی روشنی کو چاہے وہ کتنا ہی سلیم الفطرت ہو خارج کی رہنمائی(یعنی انبیا کو دیا گیا علم) سے نہ ملا پائے تو قیاس آرائیوں اور اٹکل پچو میں بہت دور نکل جاتا ہے۔۔کہتے ہیں کہ گوتم بدھ نے خود نہیں بلکہ اس کے پیروکاروں نے پھر بُت پرستی اختیار کئے رکھی۔۔
کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
حیران ہوں
میں حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دہر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
بس تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
انسان کو اسکے پروردگار نے جہاں اتنا سامان زیست مہیا کیا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اسکی ہدایت کا بندوبست نہ کرتا،اسی لئے پہلے پہل انسان کو ہی نبی بنا کر بھیجا گیا اور پھر فری وِل سے آراستہ یہ انسان جب جب بھول بھلیوں میں پڑ کر راستہ بھولتا رہا اسکا رب تب تب اپنے بندے(رسول) پیغام دے کر بھیجتا رہا۔۔
قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۳۸﴾
ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ،جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں ۔