27 دسمبر اردو زبان کے سب سے بڑے شاعرمرزا غالب کا یوم پیدائش
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اور یہ دعویٰ ایسا کچھ غلط بھی نہیں تھا، اس لیے کہ غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کردینے کے فن پر کمال حاصل تھا
ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﺣﺴﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﯽ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍ ﺻﻞ ﮐﻤﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮐﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﯼ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻏﺎﻟﺐ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺁﺷﻮﺏ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﻮ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﭼﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﻏﺎﻟﺒﺎً ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﺳﻌﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯽ۔
ﻣﺮﺯﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﺳﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﮓ ﺧﺎﮞ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﮓ ﺗﮭﺎ ۔ ﺁﭖ 27 ﺩﺳﻤﺒﺮ 1797 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﻏﺎﻟﺐ ﺑﭽﭙﻦ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﺘﯿﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﭽﺎ ﻣﺮﺯﺍ ﻧﺼﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﮓ ﻧﮯ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ 8 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﭽﺎ ﺑﮭﯽ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﻧﻮﺍﺏ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﺨﺶ ﺧﺎﮞ ﻧﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﺍ ﺩﯾﺎ۔
1810 ﺀﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﻧﻮﺍﺏ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﺨﺶ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﺮﺯﺍ ﺍﻟﮩﯽ ﺑﺨﺶ ﺧﺎﮞ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻣﺮﺍﺀﺑﯿﮕﻢ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺑﺎﺋﯽ ﻭﻃﻦ ﮐﻮ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﺩ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺩﮨﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺳﮑﻮﻧﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯽ۔
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻟﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﻭﺭ ﻗﺮﺽ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺁﺧﺮ ﻣﺎﻟﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻏﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﯽ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ 1850 ﺀﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﻧﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﻮ ﻧﺠﻢ ﺍﻟﺪﻭﻟﮧ ﺩﺑﯿﺮ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﻧﻈﺎﻡ ﺟﻨﮓ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺗﯿﻤﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ 50 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﺎﮨﻮﺭ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﺎ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﻮﺍ۔
ﻏﺪﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﭘﻨﺸﻦ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻧﻘﻼﺏ 1857 ﺀﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﺯﺍ ﻧﮯ ﻧﻮﺍﺏ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﺍﻣﭙﻮﺭ ﮐﻮ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﺎﮨﻮﺍﺭ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﻮ ﺗﺎﺩﻡ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﻠﺘﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﮐﺜﺮﺕ ﺷﺮﺍﺏ ﻧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﺍﻧﮑﯽ ﺻﺤﺖ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮯ ﮨﻮﺷﯽ ﻃﺎﺭﯼ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ 15 ﻓﺮﻭﺭﯼ 1869 ﺀ ﮐﻮ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ دہلی کی بستی نظام الدین میں ﺁﺳﻮﺩﮦٔ ﺧﺎﮎ ﮨﻮﺋﮯ۔
مغل بادشاہ کی طرف سے نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے، غالب ان کا تخلص تھا اور اس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا، کوئی انہیں مغلوب نہ کر سکا۔
غالب اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے تاہم فارسی شاعری کو زیادہ عزیز جانتے تھے۔
نقادوں کے مطابق غالب پہلے شاعر تھے جنھوں نے اردو شاعری کو ذہن عطا کیا، غالب سے پہلے کی اردو شاعری دل و نگاہ کے معاملات تک محدود تھی، غالب نے اس میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے دوآتشہ کردیا۔
ان کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت نظر آتی ہے، جس نے اردو شاعری کو بڑی وسعت دی ہے۔
غالب کی شاعری، رومانیت، واقعیت، رندی، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔
انہوں نے زندگی کو کھلے ذہن کے ساتھ مختلف زاویوں سے دیکھا اور ایک سچے فنکار کی حیثیت سے زندگی کی متضاد کیفیتوں کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔
غالب نے اپنے ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھے، ایک خالص تجرباتی شاعر کی حیثیت سے وہ ہر مقام پر رنگ و آہنگ بدلتے رہے۔
ان کی شاعری زندگی کی کشمکش کی پروردہ ہے اسی لئے ان کی شاعری میں جو رنج و الم ملتا ہے اور جس تنہائی، محرومی، ویرانی، ناامیدی کی جھلک ملتی ہے، وہ صرف ذاتی حالات کا عکس نہیں بلکہ اپنے عہد، سماج اور ماحول کی آئینہ دار ہے
منتخب_کلام
مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
……
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
……..
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
……..
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
…….
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
……..
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
……..
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
……
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
…….
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
…….
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
……
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
……..
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
……
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
……..
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
…….
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
……..
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
…….
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
…….
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
…….
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ