روزنامہ یوتھ ویژن کی جانب سے تمام اہل اسلام کو دل کی اتہا گہرائیوں سے عیدالفطر 2024 مبارک ہو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام دسویں بین الاقوامی سیرت النبی ﷺکانفرنس کا انِقعاد وہیل چیئر ایشیا کپ: سری لنکن ٹیم کی فتح حکومت کا نیب ترمیمی بل کیس کے فیصلے پر نظرثانی اور اپیل کرنے کا فیصلہ واٹس ایپ کا ایک نیا AI پر مبنی فیچر سامنے آگیا ۔ جناح اسپتال میں 34 سالہ شخص کی پہلی کامیاب روبوٹک سرجری پی ایس او اور پی آئی اے کے درمیان اہم مذاکراتی پیش رفت۔ تحریِک انصاف کی اہم شخصیات سیاست چھوڑ گئ- قومی بچت کا سرٹیفکیٹ CDNS کا ٹاسک مکمل ۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر آج سماعت ہو گی ۔ نائیجیریا ایک بے قابو خناق کی وبا کا سامنا کر رہا ہے۔ انڈونیشیا میں پہلی ’بلٹ ٹرین‘ نے سروس شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل منیرافسر کوبطورچیئرمین نادرا تقرر کرنے منظوری دے دی  ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں وزارت داخلہ کے قریب خودکش حملہ- سونے کی قیمت میں 36 ہزار روپے تک گر گئی۔ سدھو موسے والا کا قاتل امریکا میں فائرنگ سے قتل مئی 2024ء سیرت چیئر دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاول پور کے زیر انتظام بین الاقوامی سیرت النبیﷺ سیمینار کا انعقاد دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی طاقت پاکستان کا چاند مشن کل 3 مئی کو 12 بجکر 50 منٹ پر روانہ ہوگا موسم گرما 2024 کی چھٹیوں کا ممکنہ شیڈول سامنے آگیا شہرقائد میں تعلیم برائے فروخت اسکولز کی بھرمار لال سہانرا کے جنگل سے لکڑی چوری پر ڈپٹی کمشنر بھاولپور کی چوروں کے خلاف کاروائی یوم مزدورکی مناسبت سےاسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورمیں تقریب کا اہتمام جنوبی ایشیا کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلئے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ماہرین مصروف عمل پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر بھیجنے کی تیاریاں مکمل یکم مئی 2024 یومِ مزدور پر ریلیاں، جلسے، اجرت میں اضافے کا مطالبہ

بجلی کے بل کیسے کم ہو سکتے ہیں؟


مصنف، ملک فدا الرحمان

بجلی کی قیمت بنیادی طور پر دو چیزوں سے طے ہوتی ہے۔پہلی چیز ایندھن کی قیمت ہے کیونکہ ملک میں بجلی بنانے کے لئے بیرون ملک سے فرنس آئل،ڈیزل، کوئلہ یا دیگر درآمدی ایندھن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاﺅ ہے۔ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ کرتی ہے.موجودہ قیمتوں میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ سابقہ دور حکومت میں آئی ایم ایف سے طے کردہ شرائط اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو معاشی خودانحصاری دینا بھی ہے۔اب ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ کرتی ہے۔سابقہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے حکومت پاکستان کا ماضی کی طرح اب سٹیٹ بینک پر کنٹرول محدود ہوگیا ہے۔اگر مصنوعی طور پر حکومت ڈالر کی قیمت کو قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر (فارن ریزروز) پر بوجھ بڑھ جاتا ہے جس سے ملک کے لئے مزید معاشی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔آئی ایم ایف نے بھی شرط عائد کر رکھی ہے کہ حکومت ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کنٹرول نہیں کرے گی اور ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ ہی کرے گی۔

بجلی کی قیمت کا تعین کرنے والے دونوں عوامل (Factors) یعنی درآمدی ایندھن اور ڈالر کی قیمت،حکومت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں۔اس صورتحال میں توانائی کے متبادل ذرائع عوام کو ریلیف دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کے فروغ کی طرف سفر ابھی شروع ہوا ہے۔سابق وزیراعظم شہبازشریف کی مخلوط حکومت میں شمسی توانائی سے 10 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کے منصوبے کا آغاز ہوا تھا جس پر عمل درآمد ابھی جاری ہے۔اس کے نتائج آنے میں وقت لگے گا۔اسی طرح ایک پہلو نجی بجلی پیداکرنے والے کارخانوں (آئی پی پیز) کو ادائیگیوں کا بھی ہے۔اس میں بجلی کی پیداوار سے قطع نظر متعین ادائیگیوں (Capacity Payment) کا بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ یہ ادائیگیاں ڈالر میں ہوتی ہیں۔


ایک اور اہم مسئلہ بجلی کی چوری کی صورت میں درپیش ہے جسے ’لائن لاسز‘ کی ایک نہ سمجھ میں آنے والی اصطلاح میں چھپایا جاتا ہے لیکن سادہ الفاظ میں یہ بجلی کی چوری ہے یعنی بے ایمانوں کی بے ایمانی کی سزا ایمان دار بجلی صارفین کو بھگتنا پڑتی ہے۔’لائن لاسز‘ کی تعریف میں آنے والے صارفین وہ ہیں جو بجلی کا بل سرے سے ادا ہی نہیں کرتے یا تاخیر سے بل بھرتے ہیں یا پھر اقساط میں بل جمع کراتے ہیں۔اس تعریف میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کنڈے یا دیگر ہتھکنڈوں سے بجلی چوری کرتے ہیں.اور اس کا خمیازہ اُن صارفین کو ادا کرنا پڑتا ہے جو باقاعدگی اور ایمان داری سے بجلی کی ماہانہ بنیادوں پر قیمت ادا کرتے ہیں۔ان عوامل کی وجہ سے بجلی تیار کرنے پر جو لاگت آتی ہے، وہ پوری مقدار میں وصول نہیں ہوپاتی اور بجلی کے شعبے کا خسارہ بڑھتا جاتا ہے.جسے اب ”گردشی قرض (Circular Debt) کی اور اصطلاح سے بیان کیاجاتا ہے


ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بجلی کا 75 فیصد استعمال گھریلو صارفین کرتے ہیں۔صنعت، تجارت اور کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال ہونے والی بجلی سے کاروباری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں,اس بجلی کے استعمال میں اگر اضافہ ہو تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوتا ہے لیکن گھریلو صارفین کے بجلی کے استعمال کے نتیجے میں انہیں بجلی کے زیادہ بل آتے ہیں اور عوامی بے چینی کا ذریعہ بنتا ہے۔اس تمام صورتحال اور عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اچھی حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ گھریلو صارفین بجلی کے باکفایت استعمال کی عادت اپنائیں۔ جب تک ملک میں توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی کے موجودہ بحران میں ایک بہتر صورتحال پیدا نہیں ہوتی،اس عرصے کے دوران قومی سطح پر ہمیں وہ طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اپنائے جاتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام،ادارے اور کاروبار کرنے والے زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی بروئے کار لاتے ہیں۔دِن کے اُجالے میں کاروبار ہوتا ہے اور روزمرہ زندگی کے زیادہ تر کام سورج کی روشنی میں ہی انجام دئیے جاتے ہیں.ہمارے ملک میں رات دیر تک دکانیں کھُلی رکھنے اور دِن کے اُجالے کو ضائع کرنے کا بدقسمت رجحان چلا آرہا ہے۔

توانائی کے بحران کے پیش نظر ہمیں بھی اپنی عادات اور طرز زندگی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے.بجلی کا سب سے زیادہ استعمال شام پانچ سے گیارہ بجے تک ہوتا ہے۔گھریلو صارفین کو چاہیے کہ شام کے اِن اوقات (Peak Hours ) میں اے سی،استری،موٹر وغیرہ جیسے زیادہ بجلی پر چلنے والے برقی آلات استعمال نہ کریں تاکہ گھریلو صارفین کا بجلی کا بل نہ بڑھے اور کھپت میں بھی کمی آئے البتہ فارمیسیز یعنی ادویات کی دکانیں یا بیکریز کو کھلا رکھا جاسکتا ہے۔اس میں بھی ایک اچھی تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ ایک ہی علاقے میں موجودہ بیکریاں اور ادویات کی دکانیں ہفتہ وار ترتیب کے ساتھ کھُلی رکھی جائیں یعنی ایک ہی علاقے میں اگر دس دکانیں ہیں تو ایک دکان رات کو کھُلی رہے اور ددیگر بند رہیں۔یہ عمل دنوں کی ترتیب سے کیاجاسکتا ہے تاکہ عوام کو تکلیف بھی نہ ہو اور بجلی کی بچت بھی کی جاسکے۔بازار اور دکانیں صبح جلدکھول کر اور شام کو جلد بند کرکے بھی بجلی کی خاطرخواہ بچت کی جاسکتی ہے جبکہ اس سے درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والا اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاسکتا ہے۔

ایک یہ تجویز بھی سامنے آرہی ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کردی جائے۔اس ضمن میں مثال پی ٹی سی ایل (PTCL) اور سابق ٹی آئی پی (TIP) کی دی جاتی ہے۔ اس شعبے کی نجکاری سے قبل ٹیلی فون لگوانا دشوار ترین کام تھا لیکن جب سے اس شعبے کی نجکاری ہوئی اور دنیا کی مزید کمپنیاں اس شعبے میں شامل ہوئیں تو فون کنکشن لگوانا آسان ترین کام ہوگیا اور قیمتوں میں نمایاں کمی ہوگئی۔اسی مثال پر چلتے ہوئے اب بجلی کے شعبے کی نجکاری بھی وقت کی ضرورت ہے۔اس شعبے کی نجکاری کے نتیجے میں مسابقت کا ماحول بڑھے گا جس سے صارفین کو فائدہ ملے گا جبکہ بجلی چوروں کو بجلی چوری کی سہولت ختم ہوگی۔ویسے میری ذاتی رائے ہے کہ محکمہ بجلی کے وہ چکنگ سٹاف جس کے علاقے میں بجلی چوری ہو رہی ہو اسے نوکری سے فارغ کرنے کے علاوہ جیل بھجوانے اور کیش جرمانہ جو ملینز میں ہو کیا جائے تو چوری رک جائے گی. اس سے بجلی بھی سستی ہو جائے گی اور عوام کو لوڈشیڈنگ جیسا سنگین مسئلے سے بھی دوچار نہیں ہونا پڑے گا.صرف ان کام چوروں کی حکومت بھی بدنام ہوتی ہے.عوام بھی عزاب پر چڑھے رہتے ہیں.زائد بلوں کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں.پورے پاکستان کے عوام بجلی کے بل احتجاجاً جلا رہے ہیں. اور نئی حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں.صرف چیکنگ سٹاف دیانت داری سے کام کرے تو بجلی کے تمام معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں

50% LikesVS
50% Dislikes
WP Twitter Auto Publish Powered By : XYZScripts.com