کتاب غضنفر

کتاب محض معلومات کا ذخیرہ ، خیالات کا مجموعہ ،مشاہدات کا مرقومہ ، حالات کا تبصرہ ،حکایات کا تذکرہ ،تجربات کا آئینہ یا اوراق, تفنن,طبع اور صفحات,سامان, تفریح نہیں بلکہ زندگی,پرپیچ کی تشریح اور بیماری, حیات و کائنات کی مسیح بھی ہے ۔
کتاب صرف دیدہ زیب سرورق،نفیس کاغذ،خوبصورت کتابت، عمدہ طباعت ،مربوط و مضبوط جزو بندی ،اور مزین جلد سازی سے تیار کیا گیا کوئی مرقع, قرطاس نہیں بلکہ لطیف احساسات و جذبات کا منبع ،اعلا افکار و خیالات کا ماوا، بلند وبالا تصورات کا ملجا،روشن تجربات و مشاہدات کا مرکز ،ارفع
اصول ونظریات کا محور ،فکر انگیز فلسفہ و منطق کا مسکن ، تدبر و حکمت کا مخزن ،آگہی وبصیرت کا مستقر ،علم و دانش کا ماحصل ،صدائے سحرساز کا مخرج، نوائے دل نواز کا مآخذ،بیداری, شعور و ادراک کا میدان, عمل ،بلند پروازی, تخیل کا مکتب ،بالیدگی,روح کی درس گاہ ،تزکیہء نفس کی خانقاہ ،توازن ،تناسب و توافق کی آماجگاہ اور حصول منزل, مقصود کی شاہراہ بھی ہے ۔
اور یہ تمام تر صفات و کمالات اور کشف وکرامات دائرہ ء کتاب میں داخل ہوتے ہیں
جادہءزبان سے ۔اس گزرگاہ, زبان سے جو فقط حروف کی نشست ،لفظوں کی ترتیب ،جملوں کی ترکیب ،املا وانشا کے در و بست ،صرف و نحو کے انتظام و انصرام اور رموز, اوقاف و علامات کے التزام واہتمام سے نہیں بنتی بلکہ احساس کی حدت ،جذبات کی شدت ، تخئیل کی رفعت، تخلیق کی قوت اور اختراعی جدت سے ہموار ہوتی ہے اور جس زبان میں ان خصائص کی کارفرمائی ہوتی ہے وہ زبان ،زبان نہیں رہ جاتی سحر آگیں صوت و صدا میں بدل جاتی ہے ۔تخلیقیت کا جامہ پہن لیتی ہے ، زبان ایک اور قالب میں ڈھل جاتی ہے ،گویا زبان تخلیقی زبان بن جاتی ہے۔
تخلیقی زبان دراصل لفظ کی جادوگری کا نام ہے جو مخلصانہ احساس ،درد مندانہ ادراک ،پیغمبرانہ فکر، فقیرانہ ریاضت اور فنکارانہ اظہار سے وجود میں آتی ہے اور لفظ کی جادوگری یہ ہےکہ لفظ تصویر بن جائے ،لفظ سر میں ڈھل جائے۔لفظ تال میں بدل جائے ۔لفظ آہنگ میں تبدیل ہو جائے۔لفظ رقص کرنے لگے،لفظ سوانگ بھرنے لگے۔لفظ بھاؤ بتانے لگے ۔لفظ کرشمہ دکھانے لگے۔لفظ طبلے کی طرح کھنک اور گھنگھرو کی مانند چھنگ اٹھے۔لفظ پھول بن کر آنکھوں میں کھل جائے ۔لفظ رس بن کر جسم وجاں میں گھل جائے ۔لفظ رنگ میں بدل جائے ۔لفظ خوشبو ہو جائے ۔لفظ روشنی نظر آئے ۔لفظ گنجینہء معانی کا طلسم بن جائے ۔لفظ انداز,بیاں اور میں ڈھل جائے ۔لفظ اختلاط,جان وتن ہو جائے ۔لفظ نمک,خوان,تکلم میں تبدیل ہو جائے۔لفظ نطق کے ناطقے بند کر دے۔لفظ اک رنگ کے مضمون کو سو رنگ سے باندھ دے۔لفظ سخن گوئی کو مرصع سازی کے عمل سے گزار دے۔نو طرز, مرصع کو باغ وبہار کردے۔ گل,بکاؤلی میں گلزار,نسیم کا رنگ بھر دے۔تذکرہءشعرائے اردو کو آب حیات بنا دے۔ فکر, اقبال کو خضر,راہ بنا دے
قصہ مختصر یہ کہ اپنے جدول میں تخلیقی حسن سجانے ،متن میں جہان, معنی بسانے، زبان میں لسانی سحرکاری سمونے اور بیان میں طلسمی لڑیاں پرونے والی کتاب صرف کتاب نہیں رہ جاتی بلکہ وہ کلمات, الٰہی وارشادات رسول بن جاتی ہے ۔ گیتا ،بائبل ،رمائن اور گروگنتھ کا روپ لے لیتی ہے ۔ شاہنامہ اور مہا بھارت کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔گلستاں اور بوستاں میں بدل جاتی ہے ۔ مثنوی, معنوی ،گیتانجلی، ریاست اور بوطیقا ہو جاتی ہے ۔
لہذا کتاب محض کتاب نہیں ،کتاب گنجینہ ء معانی اور گنج ہائے گراں مایہ بھی ہے ۔مفتاح القرآن اور سحرالبیان بھی ہے ۔نیرنگ, خیال اور فضائل, اعمال بھی ہے ۔نقوش سلیمانی اور اسم اعظم بھی ہے ۔
اسی لیے جب کتاب کھلتی ہے تو آب,حیات کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے ۔دریائے لطافت بہنے لگتا ہے ۔ بحر الفصاحت اپنے موتی لٹانے لگتا ہے ۔آب رواں جاری ہو جاتا ہے ۔آب,گم
واپس آ جاتا ہے ۔ اسم اعظم مل جاتا ہے ۔ساتواں در کھل جاتا ہے ۔طلسم ہوش ربا فسانہ ء عجائب دکھانے لگتا ہے ۔پھول بن لہلہا نے لگتا ہے رگ و ریشے میں سب رس ٹپکانے لگتا ہے ۔
اور جب کتاب بند ہوتی ہے تو دریائے لطافت کا بہاو رک جاتا ہے ۔بحرالفصاحت کی موجیں تھم جاتی ہیں ۔کتھا ساگر میں برف جم جاتی ہے۔ کلام آب رواں ٹھہر جاتا ہے۔
پس یہ جانیے کہ کتاب مصباح, طلسمات, کامرانی بھی ہے اور کلید, تسخیر, کائنات, جاویدانی بھی ۔کتاب رہنمائے حیات بھی ہے اور راہ, نجات بھی ۔