دشمنِ انسان
تحریر۔۔۔۔۔ کنول نور
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُقارئين کرام!آج جب انسان شعور کی سیڑھی پرقدم رکھتاھے اور جب اس کو اس بات کا علم ھوتا ھے کہ تخلیق کرنے والے خالق نے اس کو اپنی مخلوق کی جس قطار میں رکھا ھےاُ س کا تمغہ اشرف المخلوقات (سب سے زیادہ عزت دار،سب سے زیادہ نفیس) کا ھے قارئين کرام اس بات کے علم کے بعد حضرتِ انسان پر یہ بات واجب تھی کہ وہ تلاش کرتا اپنے خالق کو کہ جس کا وہ شہکار ھے مگر حضرتِ انسا ن تو غفلت کی سارگی میں مارا گیا اور اسی سادگی کے ساتھ اس نے اپنے سفرِ زندگی کا آغاز کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج جب حضرتِ انسان زندگی کو جینا چا ہتا ھے تو اس کو زندگی جینا سب سے زیادہ دشوار نظر آتا ھے
حالانکہ وہ اشرف المخلوت ھے اور اس کے پاس عقل جیسا روشن چراغ موجود ھے مگر اس چراغ کے لۓ کہاوت مشہور ھے کہ چراغ کے نیچے ہمیشہ اندھیرا ھوتا ھے حضرتِ انسا ن کے ساتھ بھی کوٸ اس طرح کا معاملہ در پیش آیا حضرتِ انسان نے اس چراغ عقل کی مدد سے پرندوں کی طرح ھوا میں اُڑنا سیکھ
لیا اور مچهلیوں کی پا نی میں تہرنا بھی سیکھ لیا اور اس کے علاوہ حضرتِ انسان نے اس چراغ عقل کی مدد سے ہر اس چیز کو اپنے لۓ آسان سے آسان تر بناتا گیااور اپنی زندگی سے ہر اندھیرے کا وجود مٹاتا گیا اور ان تمام آسٕیشوں کے با وجود انسان کا کہنا ھے کہ اس کے پاس سب کچھ ھے مگر سکون اور اطمینان کی دولت نہیں حالاںکہ مجھے تخلیق کرنے والے خالق کا تو فرمان ھے
کہ اے حضرتِ انسان میں تجھ کو خوب صورت سانچے میں ڈھالہ ھے بس حضرتِ انسان کے کانوں سے یہ جملہ کیا ٹکرایا اس نے عمل کی دنیا کو ٹھوکرمارتے ھوۓ کچھ اس طرح کلام کیا کہ مجھے توخوب صورت بنایا گیا ھےاور خوب صورت ھو نا کسی عام بلا کا نام نہیں ھے اور پھر حضرتِ انسان اسی غرور وتکبرکی وجہ سے احسن کے درجے سے کچھ اس طرح نیچے آیا کہ اس کےکردار کو دیکھ کر حیوان اس سے شرما نے اور درندے اس سے گھبرانے لگے
کہونکہ قارئين کرام یہ تمام مخلو قات دوسروں کو تو نقصان پہنچا تی ھیں مگر کبھی اپنے ساتھیوں نقصان نہیں پہنچاتی مگر افسوس اے حضرتِ انسان تیری ذات پر کہ تو اپنے ھی بھاٸ کا دشمن ھوا کبھی حسدو حرص کی بنیاد پر تجھے تیری طاقت کا گمنڈ اتنا عزیز ھے کہ تو نے اس گمنڈ کے ہاتھوں اپنے ھی بھاٸ کا لہو پینا شروع کر دیا تیرا ظرف اتنا چھوٹا تو نہ تھا کہ تو کوزوں پر ظلم کرنا شروع کردےتیری اس بے حسی کو دیکھ کر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ھے
کہ مٹی کی مورتیوں کا ھے میلہ لگا ھوا
آنکھیں تلاش کرتی ھیں انسان کبھی کبھی
تواے حضرتِ انسا ن جب تک تو غفلت کی چادر اوڑھ کے سو یا رھے گیا تب تک یوں ھی حالات و واقعات کی ہاتھو ں ذلیل و رسوإ ھوتا رھے گا اور جب تک تو اپنے اندر کی دنیا کو پر سکون نہیں بناۓ گاتب تک باہر کے طوفانون سے گھبراتا رھے گاکیونکہ اے حضرتِ انسان !
تو حود ھی ھے اپنے آپ کے پیچھے پڑھا ھوا تیرا شمار بھی تیرے دشمنوں میں ھے
تو اے حضرتِ انسان تیرے حق میں بہتر یہی بات ھے کہ پہلے تو اپنی بنیادوں کو ٹھیک کر کیونکہ جب تواپنی بنیادوں کو ٹھیک کر لے گا تو تیری عمارت خود بخو د خوب صورت ھو جاۓ گی اور جب عمارت خوب صورت ھو جاۓ گٕی تو اپنے مقصد میں کامیاب ھو جاۓگا تیرا سفر رإیگا نہیں جاۓ گا۔