اقبال کا فلسفہ خودی
تحریر ۔۔۔۔۔ صفیہ ملک صابری
حضرت علامہ اقبال رح وہ پہلے الہامی شاعر،مفکر،فلسفی ہیں،جنہوں نے اپنے کلام میں "خودی”کی اصطلاح استعمال کی ہے آئیے اسکا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ خودی سے کیا مراد ہے ۔
حضرتِ علامہ اقبال کی ساری زندگی ،ساری تعلیم اور تمام شاعری کا مقصد اور لب لباب یہ ہے کہ وہ ایک غافل انسان کو غفلتوں کے پردے چاک کرکے اللہ ربّ العزت کے حضور پیش کرتا چاہتے ہیں فرماتے ہیں ع
موسم اچھا پانی وافرمٹی بھی زرخیز
جسنے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان
اپنی خودی پہچان
اوغافل افغان
لہذا وہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنے مالک حقیقی کے دربار میں حاضر ہو اور اسکو پہچانے ۔اسی پہچان کو وہ خودی کا نام دیتے ہیں۔
(1)حضرت علامہ اقبال کا تصورِ خودی کا محور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث ہے فرمایا
” جسنے اپنے رب کو پہچان لیا اس نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے ۔ پھر اسکی اپنی مرضی نہیں چلتی وہ اپنے رب کی مرضی پر چلتا ہے ۔نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ رب کریم اس سے پوچھتے ہیں کہ تیری کیامرضی ہے ۔ اس مفہوم کو علامہ صاحب یوں فرماتے ہیں ۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
(2) خودی کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر خودی انفرادی ہو تو یہ انسان کو مرد مومن بنا تی ہے ۔ لیکن اگر خودی کو اجتماعی حیثیت میں اپنایا جائے تو یہ بے پناہ طاقت کی مالک ہے ۔اور ساری کائنات کی حکمران ہے اور اس کا حکم کوہ و کاہی اور مرغ و ماہی پہ چلتا ہے ۔
فرماتے ہیں ۔
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
دوسرے لفظوں میں خودی وہ عمل مسلسل ہے جو انفرادیت کو اجتماعیت اور اجتماعیت کو قوم اور قوم کو اقوام اور اقوام کو ملت میں بدل دیتا ہے ۔ع
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خوب ہے ترتیب میں قوم رسولِ ص ہاشمی
(3)خودی کا تیسرا مفہوم یہ ہےکہ حضرتِ علامہ اقبال خودی کو جزبہ عشق سے تعبیر کرتے ہیں اور اس لافانی طاقت کے ذریعے وہ پوری کائنات میں ایک انقلاب بپا کر دینا چاہتے ہیں ۔اور انکے نزدیک عشق کا محور رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے ۔فرماتے ہیں ع
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجالا کر دے
(4)خودی کا چوتھا مفہوم یہ ہے کہ خودی کو رب کائنات کی طرف سے حاکم کائنات اور اولی الامر کا مرتبہ حاصل ہے ۔جوکائنات کو امن،محبت،پیار،اور رحمت وشفقت سے لبریز کردیا ہے ۔فرماتے ہیں
ع
کھلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی
گیا دور حدیث لن ترانی
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی
(5)خودی کا پانچواں مفہوم ہے اپنی ذات پر اعتماد اور اپنے رب پر مکمل یقین ہے ۔فرماتےہیں
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ہوتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
(6)خودی کا سب سے افضل و جامع مفہوم حضرت علامہ رح کے نزدیک یہ ہےکہ خودی ہی سب کچھ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ یہی کبھی خدا کاروپ دھار لیتی ہے اور کبھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا جبہ پہن لیتی ہے۔
فرماتے ہیں ،
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
اسی مفہوم کو اجاگر کرنےکے لیے فرماتے ہیں ۔
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اسکے پیچھے نہ حد سامنے
خودی کا نشیمن تیرے دِل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
ماہنامہ کوثر میں پرنٹ ہوا