ڈاکٹر کی ڈائری ! رمضان المبارک سپیشل نشر مُکرر چِڑی روزہ
تحریر۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسد امتیاز ابو فاطمہ
رمضان المبارک ۲۰۲۲
جب سے ہوش سنبھالا ہے مجھے نہی یاد کہ کبھی روزہ قصداً چھوڑا ہو،یقین کریں کلینک پہ اتنے نحیف و لاغر مریض بھی کہ جن سے کہا جائے آپ چاہیں تو روزہ چھوڑ دیں بیماری کا عُذر موجود ہے تو کہیں گے ;
نہ ڈاکٹر صاب کدی زندگی چی نئیں چھڈیا،
فیر پتا نیئں رمضان نصیب ہوئے کہ نا”
اور دوسری طرف اچھے خاصے جوان جہان ہٹے کٹے لوگوں کو روزہ کی ہمت و توفیق نہیں ہوتی ۔۔۔
خیر سانوں کی ساڈی تے عادت ای نیئں گل کرن دی ۔۔آآ
میرے خیال میں روزہ اور رمضان کی روح زندگی کے ہر فیز میں بدلتی رہتی ہے ؛
جیسا کہ پہلا فیز بچپن میں بغیر روزہ رکھے صرف سحری اور افطار کے چَٹ پٹے پکوانوں اور پوری فیملی کے اکٹھے دسترخوان پہ مل بیٹھنے کی رونق ہوا کرتا،آج بھی گھر میں افطار کے وقت اپنے بچوں کو چِپس اور پکوڑوں کے جھرمٹ میں للچاتی نظروں کیساتھ دسترخوان پہ براجمان دیکھتا ہوں،اذان کا انتظار ایسی بے چینی سے کر رہے ہوتے ہیں جیسے روزہ تو ان کا ہو،ہم تو بس ایویں بیٹھے ہیں ۔۔
کُھل گیا کھل گیا کا اعلان کرتے
پھر دوسرا فیز جوش میں آکر روزہ رکھنے کی ٹرائی کرنا
کانگڑی پہلوان کا پہلا روزہ چِڑی روزہ،سحری سے دوپہر بارہ یا دو بجے تمجھے آج تک یہ سمجھ میں نہی آیا کہ اسے چِڑی روزہ ہی کیوں کہا جاتا ہے کبوتر یا پھر کاں روزہ کیوں نہیں،آپ کو پتا ہو تو بتائیں کہ چِڑی کو ہی یہ عظیم سعادت کیونکر حاصل ہوئی؟
“ چِجیاں” کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹا کرتا تھا~
کھانا تو نہیں کھایا تھا نااس بات سے مجھے یاد آیا کل میڈم سدرہ شہباز جو کہ سوشل ایکٹوسٹ ہیں کرسچئین کمیونٹی سے ان کیساتھ مل کر الحمداللہ فاطمہ اسد ویلفیئر نے کئی پراجیکٹس کئے کرسچیئن کمیونٹی کی ویلفیئر کیلئے،تو انہوں نے بتایا کہ آجکل ان کے بھی روزے چل رہے تھے ۔۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ
اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔
بلکہ انہوں نے بتایا کہ ان کا روزہ پورے چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے،تو میں نے ان سے ازراہ مزاح پوچھا سنا ہے کہ آپ کا روزہ صرف پکائی ہوئی چیزوں سے پرہیز ہوتا ہے جبکہ باقی چیزیں کھا پی سکتے ہیں،تو وہ ہسنے لگیں ڈاکٹر صاحب یہ بلکل بے پر کی اڑائی گئی ہے کچھ بھی نہیں کھا پی سکتے بلکہ انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ایک دفعہ تو پانچ دن کا روزہ بھی رکھا تھا بطور مَنت اپنی والدہ کی صحت کیلئے جبکہ وہ بہت بیمار تھیں اور پھر اللہ نے شفا دے دی تھی۔۔۔
گو تیسرے دن پھر وہ لَم لیٹ ہو گئی تھیں ۔۔
مجھے یاد ہے جو کبھی بے دھیانی میں غلطی سے کچھ کھا لینا تو دوسرے بچوں نے ملامت کرنا او تیرا روزہ ٹُٹ گیا
مایوس نظروں سے امی کی طرف دیکھنا تو وہ کہتیں
کوئی نئی بُھل چُک معاف ہُندی اے۔۔
اب افطار دسترخوان پہ نظریں امی کو ڈھونڈتی ہیں،سو فیصد ٹھیک کہتی تھیں،ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والے کا بھی یہی کہنا ہے؛
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا
اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا
تیسرا فیز میڈیکل کالج ہوسٹل کے روزے نِرے فاقے،ساری رات وی سی آر پہ فلمیں سحری تک اردو سب ٹائیٹل کیساتھ،سحری کے وقت میس میں پراٹھوں اور سالن کی سپلی پہ سپلی،اور کبھی جو پسند نا آنی تو باہر ہوٹل پہ جاکر قوالیوں کے وجد میں سحری انجوائے کرنا،واپس آ کر کبھی تو نماز پڑھے بغیر سو جانا اور پھر افطاری سے کچھ ہی دیر پہلے اٹھنا،اور انتہائی خضوع خشوع کیساتھ افطار کے دسترخوان کے گرد جمع ہو جانا،زندگی بے بندگی شرمندگی،کم از کم رمضان میں ہی قرآن مجید کو سمجھنا تو درکنار ثواب کی نیت سے ناظرہ ہی پڑھنے کی توفیق نہ ہوئ پورے پانچ سال بلکہ اسکے بعد بھی کئی سال تک۔۔
اب کبھی سوچتا ہوں کہ اسی حالت میں اگر میں مر جاتا تو کیا بنتا میرا،پتا ہی نہ چلتا کہ میرے پیدا کرنے
والے نے مجھ سے کیا بات کرنا چاہی
اور پردے اٹھتے تو لگ پتا جانا تھا ۔۔۔۔
پھر انسان کہے گا ؛
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ ﴿ۙ۹۹﴾
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے ۔
لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾
کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں ہرگز ایسا نہیں ہوگا یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے ، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ۔
تو عزیزانِ من ابھی مہلت ہے ۔۔
اب پینتالیس کے بعد تیسرے فیز یعنی واپسی کے فیز
میں داخل ہو رہا ہوں تو اب تو سیریس ہونا پڑے گا زندگی کے امتحان کو لے کر کے۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
روزے دار کے لئے دو خوشخبریاں ہیں ۔۔
فرمایا ایک تو وہ جو اسے سارا دن بھوکا پیاسا رہ کر افطار کے وقت اللہ کی دی ہوئی نعمتیں کھا کر ملتی ہے ۔۔
اور دوسری اس دن جب روزہ دار کی اپنے پروردگار سے ملاقات ہو گی۔۔
یہ کہہ کر بات ختم کر دی۔۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اپنے پروردگار سے ملاقات تو سبھی کی ہونی ہی ہونی ہے تو پھر روزہ دار کیلئے خاص کیوں فرمایا گیا۔۔۔
فرمان کی گہرائی میں جانے سے پتہ چلتا ہے کہ نہایت حکیمانہ تشبیہ دی گئی ہے روزہ کی حالت کو ہماری پوری زندگی کیساتھ کہ زندگی بھی ایک روزے ہی کی مانند ہے کہ جس میں انسان کی بہت سی مرغوب چیزوں کو حاصل و استعمال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے کہ ان سے بچ بچ کے چلو،تو جب انسان کی زندگی کے روزے کا بھی کامیابی کیساتھ خاتمہ ہو جائے گا تو جب اسکی اپنے پروردگار سے ملاقات ہو گی اور جب ملاقات ہو گی اور اس کی رحمت اور رضامندی کا زرہ بھی مل گیا تو وہ کیا ہی خوشخبری ہو گی۔۔