جان ہے تو جہاں ہے پیارے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔ ملک صفدر ضیاء
جان ہے تو جہاں ہے پیارے۔ جب بھی آپ کوئی دوائی خریدتے ہیں اس کے نام کے ساتھ نیچے بریکٹ میں ایک مشکل سا نام لکھا ہوتا ہے یہ اس دوا کا اصل کیمیائی نام ہوتا ہے۔ اسے سالٹ بھی کہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو دوا آپ نے خریدی ہے وہ یہ بریکٹ والی دوا ہے ناکہ وہ نام جس سے دوا خریدی گئی ہے یا جو ڈاکٹر نے لکھا ہے۔ جو نام ڈاکٹر لکھ کر دیتا ہے یا جس نام سے فارمیسی والا بیچتا ہے وہ عمومی نام برانڈ کا نام کہلاتا ہے۔اس کا اصل دوا سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
مثلاً جب آپ پیناڈول خریدتے ہیں تو اس کے پیک پر بریکٹ میں پیراسیٹامول لکھا ہوتا ہے۔ یہی پیرا سیٹامول اصل دوا ہے۔پیناڈول نام جی ایس کے کمپنی نے اپنی پراڈکٹ کا نام رکھا ہوا ہے۔اب کوئی اور کمپنی پیراسیٹامول بنائے گی تو ہوسکتا ہے اس کا نام "انڈے آلا برگر” رکھ دے۔ یہ کمپنی کی مرضی ہے۔ دوا اس میں پیرا سیٹا مول ہی ہوگی۔ ہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دوا ایک نمبر ہوتی ہے۔اس میں مقدار پوری اور کوالٹی بہترین ہوتی ہے جبکہ ہماری لوکل کمپنیاں نہ دوا پوری ڈالتی ہیں نہ کوالٹی ان کی ٹھیک ہوتی ہے۔بعض اوقات لیب ٹیسٹ میں یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ شیر لے بچوں نے اصل دوا گولی میں ڈالی ہی نہیں بس سٹارچ اور آٹے کی گولی باٹ کر پیک کردی۔
نیشنل لوکل کمپنیاں بجائے اس کے یہ کرتی یہ ہیں کہ ڈاکٹروں کو دبا کے رشوت دیتی ہیں۔ جس سے ڈاکٹر ہر مریض کو ان کی فضول دوائی لکھ دیتا ہے۔ اے سی ، فریج ، ٹی وی تو ہوئے قصہ پارینہ اب تو فیملی فارن ٹورز اور تھائی لینڈ کی عیاشیوں اور یاٹ اور کروز ڈنرز پر بات چلی گئی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال کی بلڈنگ ، پلاٹ ، اور نہ جانے کیا کیا "سپلائی” کیا جاتا ہے۔ دو ایک برس پہلے سوشل میڈیا پر ایک شراب و شباب کی محفل وائرل ہوئی تھی جس میں ایک غیر معیاری سٹنٹ بنانے والی لوکل کمپنی کی نوجوان خاتون مینیجر ہسپتال کی خرید و فروخت میں شامل کلیدی ڈاکٹر صاحب کی گودی میں بیٹھی ہوئی جام نوش کروا رہی تھیں۔ اس ہسپتال میں دو نمبر سٹنٹ کی خریداری کے سکینڈل کا انکشاف ہوا تھا۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں ان گھٹیا حرکتوں سے باز آچکی ہیں وہ اخلاقیات سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتیں۔ ایسا نہیں کہ وہ بالکل ہی حاجی ثنااللہ ہیں لیکن کم ازکم لوکل کمپنیوں کے آگے ضرور ولی اللہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کرپشن زدہ دو نمبر مارکیٹ میں ان کی دال نہیں گل رہی اور وہ آہستہ آہستہ بوریا بستر لپیٹ کر یہاں سے جا رہی ہیں۔
اب بات یہ ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں ڈاکٹر نسخے پر دوا کا برانڈ نام نہیں لکھ سکتا ۔ وہ کیمیائی نام یعنی سالٹ لکھ کر دے گا ۔ اب فارماسسٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایفیکیسی یعنی اثر پذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بھی بہترین کوالٹی کا برانڈ ہو مریض کو تجویز کر دے۔ لیکن یہاں بھی کرپشن کا اندیشہ ہے۔ کمپنیاں اب فارماسسٹوں کو بھی خرید رہی ہیں۔
اس سب سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ ڈاکٹر کو پابند کیا جائے کہ وہ فقط کیمیائی نام لکھ کر دے۔ برانڈ مریض اپنی مرضی سے خریدے گا خواہ وہ کسی کمپنی کا خریدے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹر لکھ دے کہ آدھا کلو دودھ صبح شام۔
اب مریض کی مرضی ہے کہ وہ نیسلے کا دودھ خریدے ، اولپر کا خریدے ، حلیب کا خریدے یا پھر گوالے سے کھلا دودھ خریدے۔ ان پڑھ مریض بھی آج کل چیزوں کو گوگل کرتا ہے۔ لہذا وہ بخوبی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرچ کر کے ان کی پراڈکٹ خرید سکتا ہے۔