نونہالوں کےلیے غیروں کا نظام تعلیم کیوں؟
تحریر۔۔۔۔ ملک صفدر ضیاء
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی صاحب فرماتے ہیں کہ ماریہ مانٹیسوری نے ایک نظام تعلیم دیا جس کو مانٹیسوری نظام کا نام دیا گیا. یہ نظام تعلیم ساری دنیا میں نونہالوں کی تعلیم کے لئے سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے.
ماریہ مانٹیسوری نے نونہالوں کی تعلیم اور تربیت کے لئے فطرت کے انتہائی قریب نظام تشکیل دیا جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے.
یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے وہ زبان جو وہ ماں کی گود میں بولنا شروع کرتا ہے جس کو سیکھنا نہیں پڑتا بلکہ وہ بچے کے ذہن میں خود بخود اس کی پرورش کے ساتھ ساتھ اترتی چلی جاتی ہے. وہی زبان بچہ بازار میں ہم جولیوں، رشتہ داروں کے ساتھ بولتا ہے۔ اس زبان کو بولتے ہوئے اس کو کسی قسم کی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہ یہ زبان بچے کو سکھانی پڑتی ہے.
ذرا غور فرمائیں، آلو، بھنڈی، کنو، امرود، دروازہ، پودا، روٹی، خربوزہ، تربوز، سبزی، پھل، گوشت، ٹماٹر، دکاندار، پالک، کیلا، آم. اب انہی الفاظ کی انگریزی ملاحظه فرمائیں، potato, lady finger, orange, guava, door, plant, loaf of bread, (انگریزی میں روٹی کا متبادل کوئی لفظ نہیں ہے)، melon, water melon, vegetable, fruit, meat, tomato, shop keeper, spinach, banana, mango. وہ الفاظ جو ہم روزمرہ زندگی میں بڑی سہولت اور آسانی سے سیکھ جاتے ہیں، انہیں انگریزی میں سکھانے کے لئے کس قدر پاپڑ بیلے جاتے ہیں اور وقت اور پیسہ الگ برباد ہوتا ہے.
سوال یہ ہے کہ ان نام نہاد اسکولوں کو یہ کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو ایک ایسی زبان میں تعلیم دیں جو کہ اس ملک کے کسی باسی کی زبان نہیں ہے، اس زبان کا علم سے، سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ اس زبان کا ترقی یا خوش حالی جیسے کسی عمل سے کوئی تعلق ہے.
ایک تین ساڑھے تین سال کے بچے کو ذہن میں لائیں، جو بہرحال ایک پاکستانی بچہ ہے، ایک پاکستانی گھرانے میں پرورش پا رہا ہے، جہاں کوئی نہ کوئی پاکستانی بولی بولی جا رہی ہے، اس کے گھر میں اگر ماں باپ، دادا دادی، چچا چچی، پھپھو یا کوئی اور عزیز یا ملازم ہے وہ سب پاکستانی زبان میں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں، گھر میں ٹیلی ویژن پر سب پروگرام پاکستانی زبان میں دیکھے جا رہے ہیں اور ایسے ماحول سے نکل کر جب یہ بچہ اسکول میں پہنچتا ہے تو تعلیم دینے کے نام پر اس کے ساتھ دہشت گردی شروع ہو جاتی ہے، ایک غیر ملکی اور اجنبی زبان میں تعلیم دینے کی دہشت گردی.
اور ہم اس دہشت گردی کی قیمت خود ادا کرتے ہیں، لاہور میں اس دہشت گردی کی قیمت چند اسکولوں میں ایک لاکھ روپے ماہانہ سے بھی زیادہ ہے اور ان کی ادائیگی بھی ڈالروں میں کی جاتی ہے. ایسے بھی بہتیرے اسکول ہیں جن کی ماہانہ فیس 12000 سے 25000 روپے تک ہے، 5000 سے لے کر 10000 تک فیس لینے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے.
بات یہیں نہیں رکتی، بات اس سے آگے بڑھتی ہے، جب غیر ملکی زبان میں لکھی گئی کتابوں کی گھر پر پڑھائی کی نوبت آتی ہے، اس وقت ماں باپ کے حوصلے مزید پست ہو جاتے ہیں، وہ اسباق جو میری ماں نے روایتی تعلیم سے نابلد ہوتے ہوئے بھی بڑی آسانی سے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو ذہن نشیں کروا دیے تھے غیر ملکی زبان کی مہربانی سے گریجویٹ اور ماسٹر ڈگری (خیال رہے انہوں نے اسی نظام سے ڈگریاں لی ہوتی ہیں) رکھنےوالی مائیں اس کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں.
یہ بھتے ہماری زندگیوں کا حصہ بن جاتے ہیں، اسکول سے کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی یہ دہشت گردی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی، ہم علم سے نابلد، ہم سائنس اور ٹیکنالوجی سے نابلد اور ترقی اور خوش حالی کی دوڑ میں دنیا بھر سے پیچھے.
اور یہ بھتے کس کس معاشرتی برائی کو جنم دے رہے ہیں، رشوت ستانی کا کون کون سا در وا کر رہے ہیں، کیا کسی کو اندازہ ہے، جب کوئی سرکاری ملازم، کوئی درمیانہ یا ادنی’ اہلکار کسی ایسے اسکول میں اپنے بچوں کو داخل کرواتا ہے تو سمجھ لیں کہ اب وہ زندگی بھر کے لئے حرام خوری کے راستے پر چل پڑا ہے، رشوت ستانی اور بدعنوانی کا ایک بہت بڑا سبب یہ انگریزی میڈیم اسکول ہیں، میں نے خود دیکھا ہے کہ چھوٹے چھوٹے سرکاری ملازم اور درمیانے درجے کے بھی جب اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں تو پھر ان کے اخراجات پورے کرنے کے لئے وہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں.
پاکستان
انسانی ترقی میں 147واں نمبر
اعلی’ تعلیم میں 124واں نمبر
سائنس میں دنیا سے 60 سال پیچھے
شرح خواندگی میں دنیا کی کم ترین سطح رکھنے والے ملکوں میں شمار
نوزائدہ بچوں کی شرح اموات میں سارک ملکوں میں سب سے آگے
اور کون کون سا تمغہ ہے جو ہمارے سینے پر سجا ہوا نہیں ہے.
اس بار جب آپ اپنے بچوں کو لے کر اسکول داخل کروانے جائیں تو اسکول کے پرنسپل سے ضرور پوچھیں کہ کیا آپ بچے کو تعلیم دیں گے یا اس کے ساتھ دہشت گردی کریں گے؟
اور ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھیں کھ جو بات یہ گھر میں اپنے ماں باپ سے ان کی زبان میں آسانی سے سمجھ جاتا ہے، ان کے ساتھ ہر طرح کی بات چیت کر لیتا ہے، وہ زبان تعلیم کے لئے کیوں غیر موزوں ہے، آپ آخر اس کو ایک اجنبی اور غیر ملکی زبان میں کیوں تعلیم دینا چاہتے ہیں ایک ایسی زبان جو آپ کے بہت سے اساتذہ کو بھی نہیں آتی.
میرا سوال یہ ہے کہ بموں اور گولیوں کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کی بات تو سب کرتے ہیں اس کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی بات کرتے ہیں، تعلیم کے نام پر اس دہشت گردی کو کب ختم کیا جائے گا، کب وہ وقت آئے گا کہ میرے وطن کے نونہال اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے تعلیم کے نام پر ان کے ساتھ دہشت گردی نہیں کی جائے گی؟