صحافت کی لاش صحافت کے دروازے ……..
اڑان
تحریر چوہدری شہباز آرائیں ۔
معاشرے کی جو برائیاں ہیں آئینہ کی صورت میں عوام کے سامنے صحافی لاتے ییں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر صحافی معاشرے کے ناسوروں کا سامنا کرتے ہیں جب حسنین شاہ کو پریس کلب کے سامنے گولیوں سے چھلنی کیا گیا اور اس کی میت لاوارثوں کی طرح گاڑی میں پڑی دیکھی گئی تو دل افسردہ ہوا آنکھ نم ہوئی اور قلم نے بے تابی کے ساتھ لکھنا شروع کیا کہیں قلم کو کمزور کرنے کا یہ بہانہ تو نہیں حسنین شاہ کا قتل کہیں صحافت کو معاشرے کے سامنے کمزور بنا کر دکھانے کا ایک طریقہ کار تو نہیں حسنین شاہ کا قتل ارباب اختیار کی بند آنکھیں قانون کا بے بس نظر آنا اور مجرموں کا اتنا کھلم کھلا امریکن کونسلٹ نادرا آفس گورنر ہاوس پی ٹی وی اور بے شمار ایسے ادروں کے درمیان ایک سینئر صحافی کو دن دہاڑے قتل کر دینا
جہاں پر لوگ خود انصاف کے لئے احتجاج کرنے آتے ہیں مظلوموں کا رخ پرس کلب کی طرف ہوتا ہے جس کو انصاف نہ ملے اس کا رخ پریس کلب کی طرف ہوتا ہے سیاست کی ابتدا پریس کلب سیاست کی انتہا پریس کلب پھر اس کو کس نے کہہ دیا کہ اتنے بڑے گھر کے سامنے اس گھر کے فرد کو قتل کردے مطلب کے اس گھر کو لوگوں نے کمزور سمجھ لیا ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حسنین شاہ کے نجی معاملات تھے کوئی پرانی دشمنی تھی کسی کے ساتھ حسنین شاہ نے زیادتی کی تھی جس کا بدلہ اس نے حسنین شاہ سے لے لیا مانہ اس کے نجی معاملات ہوں گے یہ بھی مان لیا حسنین شاہ کی کسی کے ساتھ دشمنی ہوگی یہ بھی ہو سکتا ہے زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ اس نے زیادتی کر لی ہوگی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کے کسی صحافی کو چیلنج کرکے صحافت کے گھر میں آکر صحافی کی لاش صحافت کے دروازے پر چھوڑ کر چلے جاؤ یہ حسنین شاہ کے ساتھ دشمنی نہیں یہ صحافت کے ساتھ دشمنی ہے یہ صحافت کو کھلا چیلنج ہے یہ صحافت کو ڈرانے کی ایک بزدلانہ حرکت ہے اور اس میں جو جو ملوث ہے ان کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر ان کو کڑی سے کڑی سزا دلوا کر صحافت دم میں دم لے گی اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ حسنین شاہ کی موت سے صحافت ڈر جائے گی قلم سچ لکھنا چھوڑ دیں گے مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا صحافی چھوڑ دے گا معاشرے کے بدمعاشوں کا چہرہ دکھانا صحافی چھوڑ دے گا ناسوروں کو اس جگہ رہنے کی اجازت صحافت دے گی تو یہ صرف ان لوگوں کی خوش فہمی ہے لیکن ارباب اختیار کو اس بات کا نوٹس جلد سے جلد لینا ہوگا اور مجرموں کو پکڑنے میں دیر نہیں کرنی ہوگی اگر مجرم نہ پکڑے گئے اور صحافت کی طرف سے دما دم مست قلندر ہوا تو پھر کسی کا بھی رہنا مشکل ہو جائے گا اس لیے حسنین شاہ کے قاتلوں کو پہلے گرفتار کرو بعد میں یہ اپنی قیاس آرائی کرنا کے اس کے نجی معاملات سے دشمنی تھی یا کسی کے ساتھ زیادتی تھی اب مجھے تو یہ صرف معلوم ہے کہ وہ ایک جرنلسٹ تھا اور صحافت کے دروازے پر حسنین شاہ کی لاش ملی ہے ایک صحافی کی لاش ملی ہے اور اس کو لاوارثوں کی طرح نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ پاکستان کی ہر قلم اس کے ساتھ ہے ہر صحافی اس کا بھائی ہے اس کا وارث ہے حسنین شاہ لاوارث نہیں اس لیے گوشگوار کرتا چلوں کے یہ صحافت کے دروازے پر صحافی کی آخری لاش کا بھی حساب آپ نے دینا ہے