روزنامہ یوتھ ویژن کی جانب سے تمام اہل اسلام کو دل کی اتہا گہرائیوں سے عیدالفطر 2024 مبارک ہو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام دسویں بین الاقوامی سیرت النبی ﷺکانفرنس کا انِقعاد وہیل چیئر ایشیا کپ: سری لنکن ٹیم کی فتح حکومت کا نیب ترمیمی بل کیس کے فیصلے پر نظرثانی اور اپیل کرنے کا فیصلہ واٹس ایپ کا ایک نیا AI پر مبنی فیچر سامنے آگیا ۔ جناح اسپتال میں 34 سالہ شخص کی پہلی کامیاب روبوٹک سرجری پی ایس او اور پی آئی اے کے درمیان اہم مذاکراتی پیش رفت۔ تحریِک انصاف کی اہم شخصیات سیاست چھوڑ گئ- قومی بچت کا سرٹیفکیٹ CDNS کا ٹاسک مکمل ۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر آج سماعت ہو گی ۔ نائیجیریا ایک بے قابو خناق کی وبا کا سامنا کر رہا ہے۔ انڈونیشیا میں پہلی ’بلٹ ٹرین‘ نے سروس شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل منیرافسر کوبطورچیئرمین نادرا تقرر کرنے منظوری دے دی  ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں وزارت داخلہ کے قریب خودکش حملہ- سونے کی قیمت میں 36 ہزار روپے تک گر گئی۔ وفاقی سیکرٹری کابینہ کی گندم کی انکوائری سے متعلق گمراہ کن خبر کی تردید وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف میڈیسن لیکر مریضوں کے گھرخود پہنچ گئیں ”آئی کیوب قمر“خلا میں پاکستان کا پہلا قدم ہے،وزیراعظم کی قوم اورسائنسدانوں کومبارکباد ریجینل پلان 9 کے ساتھ اپنے کاروباری آئیڈیا کو حقیقت میں بدلیں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا آزادیء صحافت کےعالمی دن پر صحافیوں اور میڈیا ورکرزکو سلام سچ یہی ہے2024 کا الیکشن پی ٹی آئی جیت چکی ہے، محمود خان اچکزئی بانی پی ٹی آئی عمران خان نے چیف جسٹس پر تحریکِ انصاف کے خلاف ‘متعصب’ ہونے کا الزام لگادیا سدھو موسے والا کا قاتل امریکا میں فائرنگ سے قتل مئی 2024ء سیرت چیئر دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاول پور کے زیر انتظام بین الاقوامی سیرت النبیﷺ سیمینار کا انعقاد دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی طاقت پاکستان کا چاند مشن کل 3 مئی کو 12 بجکر 50 منٹ پر روانہ ہوگا

استاد محترم ماہر مضمون طبعیات اشتیاق احمد صاحب کا ایک خط

آج کے حرف ضیاء میں ھمارے ایک استاد محترم ماہر مضمون طبعیات اشتیاق احمد صاحب کا ایک خط ملاحظہ فرمائیں۔ کھلا خط بنام محترمُ المقام و عزت مآب جناب پرویز الہٰی صاحب وزیرِ اعلیٰ پنجاب
عنوان: ” پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے یکساں قومی نصاب کے نام پر سکولوں میں مفت بھیجا گیا انگلش میڈیم نصاب اور یکساں اور انقلابی نظامِ تعلیم کے لیے سفارشات”
السلام علیکم: آپ جیسا زیرک ، مخلص اور پاکستان کےعظیمُ المرتبت خاندان کا چشم و چراغ ہمارے صوبے کا وزیرِ اعلیٰ ہےجس پر ہمیں فخر ہے ۔ہمیں امید ہے کہ آپ ٹھنڈے دل سے ہماری گذارشات سنیں گے اور صوبے کے کروڑوں بچوں پر گدھے کی طرح لادا ہو ا بوجھ ہلکا کرکے ان پر احسانِ عظیم کریں گے۔ عالی جناب کوئی گھرہو، دفترہو ، کارخانہ ہو یا کوئی اور نظام، اس کے لیےطے کردہ اُصولوں اور ضابطوں کے مطابق ہی چل سکتا ہے۔ کوئی شخص گاڑی بغیر طے شدہ ضابطوں کے کسی مصروف شاہراہ پر چلائے گا تو یقیناً موت کے منہ میں چلا جائے گا۔اس ملک کے مختلف نظاموں کو چلانے کے لیے سب سے اہم ضابطہ آئینِ قرآن اور آئین پاکستان ہے ۔آئینِ پاکستان بھی آئینِ قرآن کی روشنی میں ہی ہمارے اکابرین نے وضع کیا ہے۔
قرآنِ پاک کی سورہ ابراہیم میں ہے ” اللہ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے وہ قوم کی زبان میں بھیجے تاکہ بات کو کھول کے سمجھا سکیں”اس آیت میں سمجھنے اور سمجھانے کی فطرت بیان کی گئی ہے جو فقط قوم کی زبان ہی ہے۔کیا انگریزی ہماری قومی زبان ہے یا مادری؟دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک نے قرآن کے اس آفاقی پیغام کے مطابق اپنی قومی اور مادری زبانوں میں نصاب تیار کرکے اپنی قوم کو پڑھایا ہے ۔اسے قوم بھی بنایا جس ترقی کی منازل بھی طے کیں
قرآن کے اسی آفاقی اُصول کے مطابق ہمارے اکابرین نے آئین پاکستان کی دفعہ 251 تشکیل دی جو ہر سطح پر اردو کو نافذ کرنے کی اب تک دُہائی دے رہی ہے۔اس دفعہ کے مندرجات ملاحظہ فرمائیں۔
251 قومی زبان(1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یومِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
(2) شق (1) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جائے گی جب تک اس کے اردو میں تبدیل کیے جانے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔
(3) قومی زبان کی حیثیت متاثر کیے بغیرکوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم و ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی۔
آئینِ پاکستان کی مذکورہ تینوں شقوں میں انگریزی کو ہٹا کر اردو کو نافذ کرنے کا حکم ہے۔مگر موجودہ حکومت پوری ڈھٹائی کےساتھ آئین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اردو کو ہٹا کر انگریزی نافذ کر رہی ہے اور ظلم یہ کہ پرائمری سطح سے ہی انگریزی نصاب رائج کر رہی ہے۔بچوں پر پرائمری سطح پر لادا گیا انگریزی کا مضمون ہی اس کی عمر ، نفسیات اور صلاحیتوں سے کہیں بھاری ہے۔اس کے ساتھ ریاضی اور سائنس بھی انگریزی میں جبراً پڑھانا نسلِ نو پر نصابی دہشت گردی کا ارتکاب ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے سائنس اور ریاضی میں اردو میں کتابیں سرے سے ہی نہیں چھاپیں اور نہ ہی کسی نجی پبلشر کو چھاپنے کی اجازت دی تاکہ رفتہ رفتہ اردو میڈیم نصاب ناپید ہو جائے۔اس کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان اور اردو سائنس بورڈ پر بھی اردو میں نصابی مواد چھاپنے پر 20 سالوں سے سامراجی ایجنٹوں نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ یہ آئینِ پاکستان کی واضح اور صریح خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟
آئینِ پاکستان کی اس دفعہ کو بغور پڑھیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ انگریزی کے نفاذ کے لیے اس میں ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اور معنی انگریزی کی حمایت میں کشید کیا جا سکتا ہے چاہے سارے نام نہاد ماہرینِ تعلیم سر کے بل کھڑے ہو جائیں۔ اس دفعہ کے مطابق ” عدالتِ عظمیٰ کا 8 ستمبر 2015 کا فیصلہ بھی موجود ہے جس میں اردو کے فوری اور ہمہ جہتی نفاذ کا حکم دیا گیا ہے مگر آپ کی حکومت اردو میں پہلے سے نافذ شدہ نصاب کو آئین پاکستان اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پوری ریاستی مشینری کی طاقت سے کھرچ کھرچ کر نکال رہی ہے اور اس کی جگہ پر انگلش میڈیم نصاب رائج کر رہی ہے۔میرے جیسے شخص سے اگر کوئی قانون شکنی ہو جائے تو مجھے یقین ہے مجھے اور میری آنے والی نسلوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا مگر اقتدار سے وابستہ افراد کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔حکومتوں کا یہی رویہ معاشرے میں ہونے والے جرائم کی بنیاد ہے ۔ لوگوں کو ان کےآئینی حق سے محروم کریں گے تو لوگ حق حاصل کرنے کے لیے قانون ہاتھ میں لیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے اب ہمارے بچوں کو اپنی زبان میں پڑھنے کا حق نہیں ہے۔آئینِ پاکستان نے جو حق دیا ہے اسے چھیننے والوں کی سزا بھی آئین ہی میں لکھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں دفعہ 6سنگین غداری(1)کوئی شخص دستور کی تنسیخ کرے یا معطل کرے یا التوا میں رکھےیا تنسیخ یا تذلیل کرےیا ایسا کرنے کی کوشش کرے یا سازش کرےیا تخریب کاری کرنے کی کوشش کرے یا سازش کرے یا معطل یا التوا میں رکھنے کی سازش بذریعہ طاقت کے استعمال یا طاقت کے دکھاوے سےیا دیگر غیر آئینی ذریعہ سے کرے تو سنگین غداری کا مجرم کہلائے گا
عالی جناب! نصابِ تعلیم کے لیے بحثیتِ مسلمان اوربحثیتِ پاکستانی شہری جب ہم پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی یکساں قومی نصاب کے نام سے مفت سکولوں میں بھیجی ہوئی کتابیں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اب کی بار لاکھوں اساتذہ اور کروڑوں بچوں کو غلامی اور جہالت کی بدترین شکل کا سامنا ہے ۔ پہلی سے آٹھوین جماعت تک انگریزی کی کتابیں اس قدر مشکل اور فطرت گریز ہیں کہ اساتذہ کا انہیں عام بچوں کو پڑھانا اور بچوں کا پڑھنا ناممکن ہے۔ کیونکہ کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرز پر بنائی گئی کتابیں ، ان کی عبارتیں، جملے اور بھاری بھرکم گرامر کی مشقیں جن میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات سبق سے اخذ کر کے دینا ایک ایم اے انگریزی کے لیے بھی انتہائی مشکل ہے۔ انہیں بچوں کو سمجھانا تو بالکل ہی ناممکن ہے۔یہ کتابیں ان لوگوں کے بچوں کے لیے ہیں جن کی مادری یا قومی زبان انگریزی ہے ۔ہمارے بچوں کے لیے انگریزی کے اسباق میں ایسے سادہ جملے اور فقرے دیے جا سکتے ہیں جنہیں بچوں کو ترجمے کے ساتھ پڑھایا اور سمجھایا جا سکے۔اس کا مقصد بچوں کو تعلیم سے باغی کرنے کے علاوہ کچھ اور معلوم نہیں ہوتا۔آپ سے گذارش ہے کہ یہ کتابیں لاہور کے کسی قریبی سرکاری سکول سے منگوا کر ضرور دیکھیں اور غیر جانبدار ماہرین سے تجزیہ کروائیں
انگریزی کے علاوہ سائنس اور ریاضی کی کتابیں بھی انگریزی میں دی گئی ہیں۔گذشتہ کئی سالوں سے بچے سائنس اور ریاضی اردو میں پڑھ رہے ہیں۔ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہماری وزارتِ تعلیم کے پاس ہے جو ان بچوں کو گھول کر پلائی جائے اور بچے سب کچھ یکدم انگریزی میں پڑھنا شروع کر دیں۔ عزت مآب وزیرِ اعلیٰ صاحب ! آپ سے درخواست ہے کہ اس نصاب کو بنانے والے اور اس کی یکساں قومی نصاب کے نام پر بچوں کو انگریزی میں ریاضی اور سائنس کی کتابیں دینے کی سفارش کرنے والے ماہرین کو ہمارے سکول میں یا ہماری طرح کے کسی بھی سکول میں بھیجیں اور ان سے کہیں کہ ہمارے بچوں کو سائنس اور ریاضی کا صرف ایک سبق انگریزی میں اس طرح پڑھا کر دکھائیں کہ بچے سمجھ جائیں اور سمجھی ہوئی بات کو بچے اپنے لفظوں میں انگریزی میں بیان کر سکیں۔سبق دس دفعہ پڑھا لیں تب بھی نہیں سمجھا سکیں گے۔ان کے پڑھانے کی ویڈیو پی ٹی وی پر نشر کر دیں اور لوگوں سے رائے لے لیں ۔ان نصاب سازوں اور نام نہاد ماہرینِ تعلیم کی لیاقت و قابلیّت کا پول کھل جائے گا۔اس کے مقابلے میں راقم الحروف کی اردو میں بنائی ہوئی 1000 سے زائد سائنسی نصابی ویڈیوز ی میں سے چند دکھا دیں جو یوٹیوب پر دستیاب ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ناچیز کے تین عدد یو ٹیوب پر چینل ہیں جن کے نام اسی مضمون کے حصہ "سفارشات” میں درج ہیں۔ میرا چیلنج ہے کہ انگلش میڈیم کے چیمپئین چوتھی یا پانچویں جماعت کی سائنس اور ریاضی کا ایک بھی سبق انگریزی میں نہیں پڑھا سکیں گے۔اگر ناظرین و سامعین کے سامنے یہ نہ پڑھائیں تو انہیں سخت سے سخت سزائیں دی جائیں بلکہ آئین توڑنے کی دفعہ 6 میں تحریر سزا کا مستحق قرار دیا جائے۔اگران کے مقابلے میں میرے اردو میں پڑھائے ہوئے اسباق عام سکولوں کے بچے نہ سمجھیں تو مجھے بھی مذکورہ سزا کا مستحق قرار دیا جائے
میری اس درخواست کے ساتھ ایک کتاب بعنوان: ” تعلیم، تہذیب اور قومی زبان کا قتلِ عام” اور ساتھ ہی 8ستمبر 2015 کا عدالتِ عظمیٰ کے نفاذِ اردو کی بابت فیصلے کی نقل بھی لف ہے۔ان دونوں کا تفصیلی مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے جن میں اپنے ذاتی اور سامراجی مفادات کا تحفظ کرنے والے اشرافیہ طبقے کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا پول کھولا گیا ہے۔
محترم المقام وزیرِ اعلیٰ صاحب خدا کے لیے نئی نسل پر رحم کیجئے، اسے رٹے کی چکی میں پس پس کر جاہل رٹو طوطے بننے سے بچائیے۔آپ صرف ایک پہلو کو مدِ نظر رکھ کر تجزیہ کریں کہ انگلش میڈیم کی وجہ سے جو طلبا و طالبات کو ٹیوشن پڑھنا پڑتی ہے ، اس کے لیے وقت اور صلاحتیں خرچ ہوتیں ہیں ، ان سب کا پیسوں میں تخمینہ لگایا جائے تو یقین کریں دس سالوں میں اتنی رقم جمع ہوگی جس سے پورے پاکستان کی سڑکیں شیشے کی بن سکیں گی۔ رقم تو ایک طرف جو ہم پر تحقیق، تخلیق اور ایجادات کے دروازے بند ہیں اس کے لامحدود نقصانات کا اندازہ تو ہم کبھی کر ہی نہیں سکیں گے اور ان بند دروازوں کو کھولے بغیر تو ترقی یافتہ قوم بننے کا ہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔کیا ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ ہماری غربت کے پیچھے ہمارا غلام انگلش میڈیم نظامِ تعلیم ہے؟
عزت مآب وزیرِ اعلیٰ صاحب! آپ صاف نیّت کے انسان ہیں ۔ آپ سے پوری قوم کو بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔یکساں نصاب تعلیم کی آڑ میں آئین سےانحراف ، نسلِ نو کے مستقبل اور ان کے آئینی حقوق سے کھلواڑ مت کیجئے۔ امید ہے آپ میری انقلابی نظامِ تعلیم کے لیے درج ذیل سفارشات کو بھی ضرورپڑھیں گے۔
یکساں اور انقلابی نظامِ تعلیم کے لیے سفارشات
انقلابی نظامِ تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ ایسا تعلیمی نظام جو انفرادی اور اجتماعی طور پر تمام اساتذہ اور طلبا و طالبات کی تربیت کرے۔ انہیں اچھا مسلمان اور محب، وطن شہری بنائے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ قوم پر تحقیق، تخلیق اور ایجادات کے دروازے کھولے۔قوم کو ہر لحاظ سے خود کفیل بنائے۔آئیے ایسے انقلابی نظامِ تعلیم کے لیے سفارشات کو مرحلہ وار دیکھتے ہیں
یہ نظام پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک کے مراحل پر مشتمل ہوگا
1: پہلی سے پانچویں جماعت تک صرف دو کتابیں ہوں پہلی اردو اور دوسری ریاضی کی۔سائنس ،معاشرتی علوم،اسلامیات ،جغرافیہ اور دیگر علوم کی بابت مضامین سادہ اور آسان پیرائے میں اردو کی کتا ب میں ہی ہوں ۔اس کے علاوہ ریاضی کی کتاب میں جمع تفریق اور ضرب تقسیم کی بنیادی مہارتیں اور روز مرہ کی پیمائشیں وغیرہ ہوں ۔املا اور ریاضی کی مہارتوں کو پختہ کرنے کے لیے تختی اور سلیٹ کا استعمال لازمی ہو ۔بھاری بھرکم کاپیوں ،دستوں اور پنسلوں کا بوجھ صرف اشرافیہ کے چونچلے ہیں اور مفت تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
2: چٹھی سے آٹھویں جماعت تک اردو اور ریاضی کے ساتھ ایک تیسری کتاب سائنس کی ہو ۔سائنس کی یہ کتاب ماحول سے مربوط سائنسی تصورات پر مشتمل ہو ۔انسانیات، حیوانیات ور نباتیات کا علم ماحول اور تہذیب و ثقافت سے مربوط ،سادہ اور آسان اصطلاحات میں ہو۔انگریزٰی یا کوئی دوسری زبان لازمی طور پر نہیں نافذ نہ کی جائے۔
3: نہم و دہم میں اردو اور ریاضی کی لازمی حیثیت کے ساتھ طبیعات ،کیمیا ،حیاتیات اور کمپیوٹر کے آسان فہم کورسز پڑھائے جائیں ۔ان تمام کورسز کا میعار ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہو ۔ان مضا میں کے ساتھ آرٹس کے تمام مضامین شامل ہوں ۔طالب علموں کو مختلف زبانیں پڑھنے کی بھی اجازت ہو گی مگر اختیا ری حیثیت سے ۔پہلی جماعت سے میٹرک تک کے اس نصابی خاکے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہو گی کہ پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا کم از کم ۸۰ سے ۹۰ فی صد حصہ بلا کسی رکاوٹ کے میٹرک پاس کر جائے گا جبکہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا صرف ۱۰ فی صد حصہ میٹرک کر پاتا ہے ۔باقی ۹۰ فی صد انگریزی میں الجھ کر تعلیم کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ذرا سو چیے کہ یہ ایک عظیم انقلاب نہیں ہو گا ؟
4: گیارہویں اور بارہویں جماعت میں اردو ، اسلامیات ،مطالعہ پاکستان کی لازمی حیثیت کے ساتھ تمام تر سائنسی اور غیر سائنسی مضامین اردو میں ہی پڑھائے جائیں جیسا کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں سندھی اور اردو میں پڑھائے جاتے ہیں اس کے لئے بھارت میں چھپنے والی سائنسی مضامین کی تمام کتابیں ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں جو کہ ncertbooks.comپر دستیاب ہیں ۔انٹرمیڈیٹ میں بھی طالب علموں کو تمام تر مضامین قومی زبان میں ہی پڑھائے جا ئیں یہاں بھی دیگر زبانیں اختیاری طور پر پڑھانے کے انتظامات ہوں ۔
5: بی ایس سی اور ایم ایس سی کے تمام تر کورسز فوری طور پر اردو میں تیار کئے جائیں ۔ زیادہ تر کورسز اردو یو نیورسٹی کراچی اور مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی حیدر آباد دکن نے پہلے سے تیار کئے ہوئے ہیں جنہیں ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں رائج ہونے کے لیے قوت نافذہ کا انتظارہے۔جو کورسز بچ گئے ہیں انہیں بھی جلد از جلد ترجموں کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔پہلے پانچ سالوں میں ہر مضمون کا امتحان اردو میں دینے کی اجازت دی جائے ۔ اس سے خود بخود ہر سطح کا نصاب ترجمہ ہونا شروع ہو جائے گا۔قرین قیاس ہے کہ سب سے پہلے ایم بی بی ایس کا نصاب ترجمہ کیاجائے۔
6: ہر یونیورسٹی میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کی طرز کا دارالترجمہ قائم کیا جائے جہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کے ساتھ ساتھ دیگر کتابوں کی تصنیف و اشاعت کا ہدف مقرر کیا جائے۔10 سالوں میں یونیورسٹیوں کی لائبریریاں ہمارے اپنے لوگوں اور اپنی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھر جائیں گی۔اس طرح خود انحصاری اور تحقیق و تخلیق کی وہ دولت ہاتھ آئے گی جس کے طفیل پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کا ۶۰ سے ۷۰ فی صد حصہ ماسٹر ڈگری کا حامل ہو گا او ر ایجادات کے صدیوں سے بند دروازے کھل جائیں گے۔ذرا موجودہ صورت حال دیکھئے کہ ہمارے بچوں کا 1 فی صد حصہ بھی بی اے ،بی ایس سی نہیں کر پاتا۔ راستے میں تعلیم سے دلبرداشتہ ہو کر جو وسائل ضائع ہوتے ہیں وہ تو کسی حدو حساب میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم بی بی ایس اور ایم ایس سی وغیرہ میں ہمارے طلبہ طلباء و طالبات اپنے کورسز کو صرف پانچ سے دس فی صد تک سمجھتے ہیں جبکہ باقی سارا رٹا ہوتاہے۔ان اقدامات کی بدولت رٹا صرف پانچ سے دس فی صد تک رہ جائے گا جبکہ ۹۰ سے ۹۵ فی صد تک نفسِ مضمون کا فہم ہو گا۔یہ ایک بڑے انقلاب کی صورت ہو گی۔
7: جامعات کے علاوہ ہر ضلع میں ایک ترجمہ مرکز قائم ہو جہاں دیگر زبانوں سے علوم وفنون منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اور علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے بھی کام کیا جائے۔ان تمام ترجمہ مراکز کو ایک مرکزی دارالترجمہ سے کنٹرول کیا جائے اور ضروری رہنمائی و تر بیت فراہم کی جائے ۔دنیا میں موجود کسی بھی ملک نے یہ کام کئے بغیر ترقی نہیں کی۔
8: تمام جامعات اور اضلاع کی سطح پر کئے گئے تحقیقی کام کی ہر سال کسی مناسب جگہ پر نمائش کی جائے اور بہترین محققین و مصنفین کو انعام واکرام اور دیگر مراعات سے نوازا جائے۔شہروں کے علاوہ ہر گاؤں میں ایک دارالمطالعہ قائم کیا جائے جہاں مطالعہ کے شوقین نچلی سطح پر کتاب کو اپنی دسترس میں پائیں اور پڑھنے لکھنے کے ذوق کی آبیاری کا دائرہ وسیع ہو ۔
9: پہلی جماعت سے ایم بی بی ایس اور ایم ایس سی تک کے تمام کورسز آسان فہم زبان میں سی ڈیز پر تیار کئے جائیں اور بازار میں عام سی ڈی یا ڈی وی ڈی کی صورت میں دستیاب ہوں ۔یہ تمام مواد مثالی اسباق کی صورت میں ہو جس سے علوم وفنون کا فہم آسان ہو اس سے ٹیوشن کا مذموم کاروبار خود بخود دم توڑ جائے گا۔رٹے کی بیماری ختم ہو جائے گی اور اس کی جگہ فہم و ابلاغ آ جائے گا۔ملاحظہ فرمائیے ناچیز کی تیار کی ہوئی سینکڑوں ویڈیوز ،مثالی اسباق کی صورت میں youtube پر جن کے پتے ishtiaqahmedishاور ishtiaqahmad1000 اورishtiaqahmed786 ہیں جہاں اردو میں پڑھائے گئے ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل اسباق ہیں۔ یہ اسباق ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہیں کہتے ہیں اردو میں سائنس نہیں پڑھائی جا سکتی۔حقیقت یہ ہے ہمارے بچوں کو انگریزی میں سائنس نہیں پڑھائی جا سکتی ہے۔حتیٰ کہ برٹش کونسل اور ہزاروں سامراجی این جی اوز کے تعاون سے تیار ہونے والے ماسٹر ٹرینر سائنس کا ایک سبق تک انگریزی میں نہیں پڑھا سکتے ہیں۔ اگر ہمت اور صلاحیت ہے تو سامنے آؤ۔
10: ملک میں فرہنگستانِ علم کے نام سے تمام علوم و فنون کی اصطلاحات اپنے ماحول، زبان اور ان کے تاریخی پسِ منظر کے اعتبار سے وضع کی جائیں اور ان کو عملاً نصاب کا حصہ بنایا جائے۔یاد رہے کہ کوئی بھی قوم پہلے الفاظ و اصلاحات ایجاد کرتی ہے اور اس کے بعد آلات و اشیاء۔یہ ایک زبردست تخلیقی عمل ہے اس سے گزرنے والی قوم پر تخلیقات و ایجادات کے دروازے بند ہو ہی نہیں سکتے۔
11: ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی اور ایک میڈیکل کالج ہو ۔مذکورہ بالا اصلا حات کے نتیجہ میں بچے اتنی بڑی تعداد میں ماسڑ ڈگری تک پہنچیں گے کہ ضلعی سطح پر قائم کردہ یہ ادارے کم پڑ جائیں گے اور انہیں تحصیل سطح پر لانا پڑے گا۔ضمناً عرض کرتا چلوں کہ ہمارے حکمران دانستہ طور پر اپنی عوام کو اَن پڑھ رکھ کر ان پر جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام مسلط کر رہے ہیں۔یہ اصلاحات واحد ذریعہ ہیں ان سے پیچھا چھڑوانے کا۔
12: اصولی طور پر معاشرے کو تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ دار ی ہے۔ریاست کے وزیر اور مشیر خود ہی اپنے اپنے سکول سسٹم کھول کر بیٹھ جائیں اور سامراجی مداخلت کے ساتھ ایک کمائی کا بڑا ذریعہ بنا لیں تو ظاہر ہے کہ غریبوں کے لئے قائم کردہ سکول اور کالج خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ان تمام سیاسی مگر مچھوں کے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جائے اور ان کے بچوں کو غریبوں کے بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لئے بٹھایا جائے تاکہ کبرو نخوت کے ان مجسموں کی گردنوں میں تنا ہوا سریہ نکل جائے اور وہ انسانیت کی سطح پر اُتر کر اپنے اردگِرد دیکھنا شروع کر دیں ۔
13: دینی مدارس کے نظام میں بھی اصلاحات لائی جائیں۔دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی اور معاشرتی علوم بھی پڑھائے جائیں تاکہ وہاں سے فارغ التحصیل افراد عالمِ دین بننے کے ساتھ ساتھ مستند طبیب اور سائنسدان بھی بن سکیں۔ہر بڑے مدرسہ میں ایک دارالترجمہ بھی قائم ہو ۔قرونِ وسطیٰ کے تحقیقی مراکز اسی طرز پرقائم تھے۔
14: مسجدوں کو بھی بچوں کو پڑھانے کے لیے استعمال میں لایا جائے ۔سکولوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے صبحُ و شام کی کلا سیں بھی لگائی جا سکتی ہیں۔نیت ٹھیک ہو تو بوہڑ،پیپل اور شیشم وغیرہ کے بڑے بڑے درختوں کے سایہ میں بھی بچوں کو بٹھا کر بھی تعلیم دی جا سکتی ہے ۔فر نیچر ضروری نہیں صفوں اور ٹاٹوں پر بیٹھ کر بچے آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ٹاٹ سسٹم ختم کر کے فر نیچر کا شور مچانا ہمارے سیاسی شعبدہ بازوں اور کمیشن مافیا کی لوٹ مارکا ڈھونگ کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔جو لوگ روٹی کو ترستے ہیں انہیں ٹاٹوں پر بٹھا کے ہی پڑھانا ممکن ہے۔ہاں ، پڑھ لکھ کر ترقی کرنے کے بعد وسائل کو یکساں تقسیم کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔
15:تمام تر مقابلے کے امتحانات اردو میں لیے جائیں گے۔ اس سے موچی اور نائی (یہ پیشے بھی باقی پیشوں کی طرح قابل احترام ہیں) کا بیٹا بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکے گا۔ان امتحانات کو انگلش میں لینا ملک کے 99فی صد لوگو ں کو آگے آنے سے روکنے کے مترادف ہے۔سپوکن انگلش اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے پاگل پن کو ختم کر کے ایسے ماہرین تیار کئے جائیں جو غیر ملکی زبانوں کے ماہر ہوں اور انہیں اپنی مادری و قومی زبان پر بھی اعلیٰ درجے کاعبور حاصل ہو ۔ان افراد کے ذمہ دوسری زبانوں کے علوم وفنون کو اپنی زبان میں منتقل کرنا ہو اور وطنِ عزیز میں سب سے زیادہ تنخواہ تحقیق کاروں کو ہی دی جائے ۔ وطنِ عزیز کا عدالتی نظام قومی اور صوبائی زبانوں میں ہو۔ اس سے انصاف کی فراہمی آسا ن اور سہل ہو گی۔انگریزی میں لکھے ہوئے عدالتی فیصلے کی چٹھی پورے پورے گاؤں پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
16: بازار میں مختلف قسم کے بینر اور اشتہاری بورڈ صرف اردو یا مقامی زبان میں لکھنے کی اجازت ہو تاکہ قومی زبان قومی تفاخر کا ذریعہ بنے۔
17: غیر ملکی امداد پر ہر قیمت پر پابندی لگائی جائے کیونکہ غیر ملکی امداد ایسی پالیسیوں کے ساتھ مشروط ہوتی ہے جو بالآخر قوم کو جاہل اور گنوار بنا کر رکھ دیتی ہے جیسا کہ پاکستان میں خصو صاً صوبہ پنجاب میں تمام تر پالیسی ساز اداروں کو جن میں پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ اور ڈائریکٹو ریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ لاہور جیسے ادارے شامل ہیں ان کو سامراجیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اڈوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
18: مسلم ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ تعلیمی منصو بے شروع کیے جائیں ۔ایک دوسرے سے جدید ترین علوم و فنون کا تبادلہ کیا جائے ۔تراجم کے کام میں خصو صاً باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے اور اُمتِ مسلمہ کو جو تعلیم و تحقیق کے میدان میں چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کی جائے ۔
19: سب سے اہم بات یہ کہ قوم کوحقیقی اسلامی تہذیب سے روشناس کرانے اور ان میں بہترین اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کے لئے چٹھی جماعت سے سو لہویں جماعت تک مکمل قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے ۔ اس سے فرقہ واریت کی جڑیں بھی خود بخود کھوکھلی ہو جائیں گی اور قومی یکجہتی اور ایمان کی پختگی جیسی بے شمار لازوال نعمتیں حاصل ہوں گی۔
حرفِ آخر : مذکورہ بالا اقدامات میں یقیناً مختلف زاویوں سے ترمیم و اضافہ اور بہتر تجاویز ممکن ہیں مگر یہ ناچیز پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہے کہ ان پر عمل کرنے سے پاکستان بیس سالوں میں سپر طاقت بن جائے گا ورنہ جو کچھ تعلیمی نظام کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے اس کے وجود کو بے شمار خطرات لاحق ہیں۔اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسے انتہائی حد تک کمزور کرنے کے آثارو شواہد ہر طرف بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔دشمن نے یہ محاذ اس لئے چنا ہے کہ تمام محاذوں کو جانے والے راستے اسی سے گزرتے ہیں۔آئیے ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہو جائیں اور حتی المقدور وسائل اکٹھے کر کے تعلیم و تحقیق کے راستوں پر چل کر اس وطن کو تر قی و خوشحالی کے بامِ عروج تک پہنچا دیں۔
آخری گذارش: عزت مآب وزیرِ اعظم صاحب اگر آپ مجھے اپنے پاس بلا کر ایک گھنٹہ سن لیں تو یقیناً بہت سے ایسے حیران کُن گوشے آپ پر وا ہو ں گےجن سے آپ کو معلوم ہو گا کہ نو گیارہ کے بعد ایک منصوبہ بند طریقے سے ہمارے نصابِ تعلیم کو کس طرح تباہ کیا گیا؟گذشتہ بیس سالوں میں ہر سال اسے بد سے بد تر کیسےبنایا گیا؟ اب اس تباہ شدہ نصاب و نظام کو کس طرح بحال کیا جائے اور تعلیمی ترقی کے اگلے مراحل کیسے طے کیے جائیں؟یہ سب امور سے آپ کی آگاہی انتہائی ضروری ہے تاکہ ملک کی اشرافیہ اور افسر شاہی آپ کو گمراہ نہ کر سکے۔ مجھے اُمید ہے کہ 22 کروڑ انسانوں کی فلاح و ترقی کی خاطر آپ اپنے انتہائی قیمتی وقت میں سے ایک گھنٹہ ضرور عنائت فرمائیں گے۔ اللہ رب العزت آپ کو ہزاروں سال کی زندگی عطا کرےجس میں آپ اپنے جذبات ، تصورات اور بیانات کی روشنی میں قوم کو ہمہ جہت ترقی اور حقیقی آزادی سے ہم کنار کر سکیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں

WP Twitter Auto Publish Powered By : XYZScripts.com