ٹوٹتا خاندانی نظام

تحریر: سیمرا جمال

خاندان جس میں تمام افراد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ہیں ایک دوسرے کا دکھ سکھ کھ اپنا دکھ سکھ محسوس ہوتا ہے جہاں ماں بہن بیٹی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عورت کا کسی بھی روپ میں ہے اس کا خیال رکھا جاتا ہے، مگر اس نظام میں کچھ دراڑیں پڑ رہی ہیں۔
جب انسان جوانی سے بڑھاپے کی جانب قدم بڑھاتا ہے تو اکثر کنبوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں تمام رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر جاتے ہیں کیونکہ یہ وہ سٹیج ہوتی ہے جہاں اولاد اللہ رحم فرمائے ادب آداب کو بالائے طاق رکھ کے ماں باپ سے الگ ہو کے ،اپنے اکیلے گھر میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں انہیں کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہو وہ آزادانہ اچھے برے تمام فیصلے کر سکیں ۔خاندانی انتشار اور رشتوں میں دراڑ کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ آج تعلیم تو ہے مگر معاشرتی تربیتی نظام کا فقدان ہے۔تعلیم یافتہ افراد تو ہیں مگر قدریں مفقود ہو چکی ہیں ۔
اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا میڈیا ہے ٹی وی پہ جو پروگرام دکھائیں جاتے ہیں، جو ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں، ان میں میں صرف اور صرف نئی نسل کادماغ نئ چیزوں کی جانب منتقل کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پرانی اقداربری طرح متاثر ہو رہی ہیں ۔
میڈیا پہ ایسے ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تصوراتی دنیااورحقیقت کی دنیا میں بہت فرق ہے۔ اگر میڈیا چاہے تو اپنا مثبت رول پلے کر کے اپنی اقدار کو پیش کر کے زوال پذیر خاندانی نظام کو مضبوط کر سکتا ہے ۔ این جی اوز کا کردار بھی اہم ہے جنہوں نے نئ نسل کو مادر پدر آزادی کے پیچھے لگا کر اس نظام میں دراڑیں ڈالی ہیں ۔عورت کو خاندانی نظام کی محافظ سمجھا جاتا تھا مگر آج وہی عورت جو کبھی اقدار اور روایات کی امین تھی مختلف این جی اوز کے نعروں کی لپیٹ میں آ چکی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج اس نسل کو بچائیں گے تو ہی اگلی نسل تک مضبوط خاندانی نظام کی روح پہنچا سکیں گے۔کتنا خوبصورت احساس تھا جب کسی ایک نے کسی کام میں کوتاہی کی تو بزرگ سر جوڑ کے بیٹھتے اسے سمجھاتے اور آخر میں رنگ برنگے قہقہوں سے گھر گونجتا تھا ۔برکت تھی،رحمت تھی مگر اب وہ تمام رحمتوں سے کیوں خالی ہوتے جا رہے ہیں خدارا مضبوط خاندانی نظام کی طرف لوٹ جائیے کہ یہی ہماری پہچان ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں