روزنامہ یوتھ ویژن کی جانب سے تمام اہل اسلام کو دل کی اتہا گہرائیوں سے عیدالفطر 2024 مبارک ہو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام دسویں بین الاقوامی سیرت النبی ﷺکانفرنس کا انِقعاد وہیل چیئر ایشیا کپ: سری لنکن ٹیم کی فتح حکومت کا نیب ترمیمی بل کیس کے فیصلے پر نظرثانی اور اپیل کرنے کا فیصلہ واٹس ایپ کا ایک نیا AI پر مبنی فیچر سامنے آگیا ۔ جناح اسپتال میں 34 سالہ شخص کی پہلی کامیاب روبوٹک سرجری پی ایس او اور پی آئی اے کے درمیان اہم مذاکراتی پیش رفت۔ تحریِک انصاف کی اہم شخصیات سیاست چھوڑ گئ- قومی بچت کا سرٹیفکیٹ CDNS کا ٹاسک مکمل ۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر آج سماعت ہو گی ۔ نائیجیریا ایک بے قابو خناق کی وبا کا سامنا کر رہا ہے۔ انڈونیشیا میں پہلی ’بلٹ ٹرین‘ نے سروس شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل منیرافسر کوبطورچیئرمین نادرا تقرر کرنے منظوری دے دی  ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں وزارت داخلہ کے قریب خودکش حملہ- سونے کی قیمت میں 36 ہزار روپے تک گر گئی۔ پاکستان میں 2 کروڑ افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی نہیں، احسن آقبال ٹیکس قانونی چارہ جوئی میں روکے ہوئے 2.7 ٹریلین روپے کی وصولی کا بل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے 23 مارچ کو کراچی کے دورے کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی اور پاکستان ایران اقتصادی مواقع بشمول سرمایہ کاری سے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ آئی ایس پی آر نے10 اپریل کوبہاولنگر میں پیش آنے والے واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کر دیا وفاقی حکومت نے ترقی کو تیز کرنے کے لیے بینک فنانسنگ کے لیے زراعت، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) جیسے شعبوں کو ترجیح دی ہے2024 ایشیائی ترقیاتی بینک نے رواں مالی سال 2024 کی رپورٹ شائع کردی بھارتی عدالت نے کرپشن کیس میں دہلی کے 55 سالہ وزیراعلیٰ کیجریوال کی گرفتاری کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کر دی۔ عیدالفطر2024 میں کراچی والوں کو عید کے روز بھی پانی کے بحران سے کوئی چھٹکارا نہ مل سکا سال 2024 میں غیرمتوقع اسٹرابیری کی فصل نے برکینا فاسو کا ‘سرخ سونا’ گھمایا

انتہا پسندی اورتشدد کی سیاست کے جمہوریت پراثرات

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارہ کائینات:

انتہا پسندی اور تشدد کی سیاست کے جمہوریت پرمضر اثرات مرتب ہوں گئے، پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں فرقہ واریت کی بنیاد پر انتہاپسندی کیا کرتی تھیں جبکہ سیاستدان انتہا پسندی سے دور رہتے تھے مگر رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں کے رویے بھی انتہاپسندانہ ہوتے جا رہے ہیں۔

آج کل جس نوعیت کی سیاست کی جارہی ہے، اس سے خانہ جنگی کے خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ ایک سیاسی مفکر نے درست کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس کا عملی مظاہرہ پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں ہماری سیاست میں جو گرما گرمی ہے وہ کوئی نئی نہیں مگر زبان کچھ زیادہ ہی بے لگام ہوگئی ہے بات آپ سے تم اور اب تو تک آگئی ہے اور معذرت کے ساتھ اس میں مرد و عورت کی کوئی تمیز نہیں۔

وہ جملے جو ایک زمانے میں فلموں یا ٹی وی ڈراموں میں استعمال ہوتے تو سینسر کی قینچی چل جاتی تھی آج سرعام استعمال ہورہے ہیں اب بے چارہ پیمرا بھی کیا کرے ڈراموں کو دیکھے یا سیاسی رہنمائوں کی تقاریر دیکھے۔ عدم تشدد کا اصول، جسے عدم تشدد کی تحریک بھی کہا جاتا ہے، سماجی یا سیاسی تبدیلی کے لیے جسمانی تشدد سے کام لینے کی مخالفت کرتا ہے۔ اسے عام طور پر ”عام لوگوں کی سیاست بھی” بھی کہا جاتا ہے اور سماجی جدوجہد کی اس صورت کو پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے سماجی انصاف کی تحریکوں میں اختیار کیا ہے۔.75 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان معاشرے کا اقتصادی ، سماجی اور سیاسی بحران وقت گزرنے کے ساتھ گمبھیر ہوتاچلا جا رہا ہے۔ ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ جو زبان زد عام ہےیہ کہ ’’آخر پاکستان میں جمہوریت کیوں نہ پنپ پائی؟ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ثقافتی اور تاریخی ادوار کے امین ہیں ، وہاں جمہوریت اور سیاست نہ صرف تواتر سے کام کر رہی ہے بلکہ جمہوری اقدار نے سماج میں اتنی مضبوط جڑیں بنالی ہیں کہ وہاں آمریت سویلین سپرمیسی اور آئین کی حرمت کے سامنے کبھی سر نہ اٹھا پائی۔غیرمتشدد اقدام ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سیاسی جمود اور اطاعت کو مسترد کرنے والے اور جدوجہد کو لازمی قرار دینے والے لوگ تشدد کے بغیر اپنی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ غیرمتشدد اقدام لڑائی سے گریز کرنے یا اسے نظرانداز کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک حل ہے کہ موثر انداز میں سیاست کیسے کی جائے اور خاص طور پر طاقت سے موثر طور پر کیسے کام لیا جائے۔” عدم تشدد کو اکثر امن پسندی کا مترادف سمجھا جاتا ہے تاہم بیسویں صدی کے وسط سے سماجی تبدیلی کی بہت سی ایسی تحریکوں نے بھی عدم تشدد کی اصطلاح کو اپنایا ہے جو جنگ مخالف نہیں ہیں۔ عدم تشدد کے نظریے کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ حکمرانوں کی طاقت لوگوں کی رضا پر منحصر ہوتی ہے اور اسی لیے عدم تشدد پر مبنی اقدام کے ذریعے حکومت کے لیے عوام کی رضا اور تعاون کو واپس لے کر اس طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غیرمتشدد اقدام کے تین بڑے درجے ہیں،دنیا بھر کی جمہوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہی ممالک میں سیاست اور جمہوریت استحکام حاصل کرتی ہے جہاں اس سماج کی ساری قوتیں یکجا طور پر ارتقا پذیر ہوں اور آئین کی پاسداری کو اپنا نصب العین بنا لیں۔ دوسری طرف جب ہم آمرانہ طرزِ عمل کی تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آمروں نے آمریت کے تسلسل اور اس کو اخلاقی جواز مہیا کرنے کے لیے کبھی تشدد ، کبھی مخصوص نظریات اور کبھی دونوں کو ملا کر اپنے آمرانہ عزائم کو آگے بڑھایا ۔ یوں پاکستانی سیاست میں بھی جمہوریت کی ارتقا پذیری کو آمرانہ ادوار میں شدید دھچکے لگے۔ایوب خان، یحییٰ خان ، ضیا الحق اور پرویز مشرف تشدد اور مخصوص نظریاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے سماج کی جڑوں میں بنیادی نظریاتی تبدیلیاں لائے۔دانش وروں کے ایسے گروہ پیداکئے گئے جو ان کے ذاتی نظریات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے سما ج تک پھیلاتے تھے۔ یاد رہے کہ روایتی سماج میں ارتقائی تبدیلی کا عمل بہت سست ہوتا ہے اور بعض سماجوں میں قدریں بدلنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن آمریت کے ذریعے جیسا کہ پاکستان میں دیکھا گیا کہ تشدد اور نظریے کے امتزاج سے تبدیلی کا عمل بہت کم وقت میں مکمل کیا گیا۔ ہٹلر اور مسولینی کی فسطائیت نے یہ کام جرمنی اور اٹلی میں کیا جبکہ ضیاالحق کی پاکستانی سماج میں پیداکی جانے والی نفرتوں ، مذہبی انتہا پسندی اور جمہوریت کی زوال پذیری کو تبدیل کرنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔ پاکستانی سیاست کی موجودہ زبو ں حالی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ آمرانہ طرز عمل نہ صرف جمہوری سیاست کا خاتمہ کرتا ہے بلکہ یک جماعتی سیاست کی سرپرستی کرتے ہوئے خان صاحب نے جو بلاشبہ اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں کبھی اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کے ذریعہ معاملات سنبھلانے کی کوشش نہیں کی البتہ ان کی پارٹی میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، فواد چوہدری، علی محمد خان، اسد قیصر اور اسد عمر جیسے لوگ ہیں جو سیاسی معاملات کو سیاسی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔باقی سیاسی آوازوں کو دبا دیتا ہے۔جبر اور نظریات کے ملاپ سے چلنے والے نظام کی وجہ سے سماج کو شدید سیاسی تنزلی کاشکار ہونا پڑتا ہے ، عوام کی ایک تعدادپر تشدد نظریے کے زور پر نہ صرف مفاہمت کر لیتی ہے بلکہ پوری طرح سر نگوں بھی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسا آمرانہ دور کبھی تو اندرونی تضادات اور ابھار کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچا یاپھر خارجی اور داخلی عوامل کے مشترکہ دبائو کے تحت زوال پذیرہوالیکن سماج میں اپنی باقیات ، رہن سہن کا ڈھنگ اور غیر جمہوری روایتیں چھوڑ گیا۔ہم پاکستانی آج بھی اس دور کے آسیب تلے زندگی گزار رہے ہیں ۔2018ء میں عمران خان کو جس طرح اقتدار میں لایا گیا ، وہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب رہے گا۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جب بھی کسی نئی جماعت کو اقتدار دلوایا اور اپنے مخصوص اہداف پورے کر لئے تو بھی وہ جماعت کبھی ختم نہ ہوسکی بلکہ سماج میں اس نے اپنی جڑیں بنالیں۔مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی تو اس کی حالیہ مثالیں ہیں ۔شدید عوامی دبائو کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصے سے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو نیوٹرل ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کے بعد جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ، اس میں بھی انہوں نے کوئی مداخلت نہیں کی جوکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک مثبت تبدیلی ہے لیکن اگر پاکستان کی جمہوریت اور سیاست کو یورپ کی طرح ارتقا پذیر ہونا ہے تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور دوسری تمام سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر اس بات کااعادہ کریں کہ وہ آئندہ اپنے تمام سیاسی مسائل سیاسی فورم پر بیٹھ کر حل کریں گی تاکہ غیر جمہوری عناصر آئندہ ان کے جھگڑوں سے فائدہ اٹھا کر سیاست اور جمہوریت کی بالا دستی کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔دنیا کے تمام جمہوری سماجوں میں ایسی ہی جمہوری روایات ایسے ہی پروان چڑھی ہیں جس کی وجہ سے ان سماجوں اورخاص طورپر یورپ نے بے انتہا ترقی کی ہے۔ اسی وجہ سے حال ہی میں شائع کئے جانے والے بین الاقوامی جمہوری انڈیکس میں جمہوریت کی پاسداری کی مد میں ناروے کو پہلا ، بھارت کو چھیالسواں، بنگلہ دیش کو پچھترواں اور پاکستان کو 104واں نمبر دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 75 سال سے نہ تو مکمل طور پر جمہوریت بحال ہوئی ہے اور نہ مکمل طور پر آمریت رہی۔یاد رہے اسی ہائبرڈ نظام کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والی محکوم قوموں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا ، بلوچ اور دوسری پسماندہ قوموں میں احساسِ محرومی بڑھا اور مظلوم طبقات جن میں عورتیں، مذہبی اقلیتیں ، مزدور، کسان اور طالب علم شامل ہیں ،کی مزید سماجی تنزلی ہوئی۔

امید تھی کہ پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے سے مثبت سیاسی اور جمہوری پیش رفت ہوگی لیکن لگتا ہے کہ شہباز شریف بھی انہی قوتوں کی مرضی سے اقتدار میں آئے ہیں کیونکہ نہ توبلوچستان اور نہ ہی مظلوم طبقات کے مسائل حل ہوئے ہیں۔غوث بخش بزنجو کہا کرتے تھے کہ جب تک پنجاب سے سیاسی مزاحمت سر نہیں اٹھائے گی اس وقت تک مجموعی طور پر پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے۔کچھ سیاسی دانشوروں کاخیال ہے کہ نواز شریف نے پنجاب میں’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ دے کر پورے پاکستان میں پذیرائی حاصل کی تھی،

اب اس کا فائدہ عمران خان اٹھا رہے ہیں ۔یوں اس بیانیے کی پنجاب میں پذیرائی جمہوریت ، سیاست اور آئین کی بالادستی کو مزید تقویت دے گی۔غیرمتشدد اقدام ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سیاسی جمود اور اطاعت کو مسترد کرنے والے اور جدوجہد کو لازمی قرار دینے والے لوگ تشدد کے بغیر اپنی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ غیرمتشدد اقدام لڑائی سے گریز کرنے یا اسے نظرانداز کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک حل ہے کہ موثر انداز میں سیاست کیسے کی جائے اور خاص طور پر طاقت سے موثر طور پر کیسے کام لیا جائے۔سیاسی مخالفین کے خلاف کیا گیا کون حکومت پر تنقید کررہا ہے اور کون ریاست یا ریاستی اداروں اور عدلیہ پر۔ یقین نہ آئے تو پیمرا کے نوٹس پڑھ لیں۔ پورا کلچر ہی ’’ٹک ٹاک‘‘ ہے۔

اب اگر بات خراب زبان سے غلیظ زبان تک آگئی ہے تو آنے والی ہماری نسلیں کس زبان میں گفتگو کریں گی یہ مجھ سے بہتر وہ بزرگ خواتین و حضرات بتا سکتے ہیں اور نوجوان جو آج کل سیاسی جلسوں میں جاتے ہیں جو بظاہر ایک اچھا سیاسی عمل ہے مگر وہ سنتے کیا ہیں؟یاد رکھیں قائدین کو جنون کی حد تک فالو کرنے والے پھر وہی زبان بھی استعمال کرتے ہیں جس کی عکاسی ان جماعتوں کا سوشل میڈیا ونگ کرتاہے۔

یہاں ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا کوئی تصور نہیں سو بس سمجھ لیں کہ معاشرتی انتہا پسندی میں چپ رہنما یا کم گفتگو کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ جہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سمجھنے والوں کی تعداد بڑھ جائے وہاں ’’فیک نیوز‘‘ ہی اصل نیوز ہے۔ جہاں صحافت خاص طور پر ٹی وی پر یہ کہا جانے لگے کہ ’’ہم تو وہی دکھاتے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ تو پھر اللہ ہی خیر کرے۔سیاست میں انتہا پسندی اور بدتہذیبی کی مثالیں میں پی ایچ ڈی صرف شیخ رشید صاحب ہیں۔خواتین کے حوالے سے ویسے بھی ہمارا ’’مائنڈ سیٹ‘‘ منفی رہا ہے اب نہ زبان پر قابو ہے نہ بعد میں معذرت یا معافی کا رواج باقی رہا اب تو سیاسی مذاکرات دیکھے بھی عرصہ ہوگیا ہے۔

پچھلے دو ماہ سے ملک سیاسی انتشار کا شکار ہے اور اب سابق وزیر اعظم عمران خان کے لانگ مارچ کا آغاز ہوگیا ہے۔

وہ فوری الیکشن چاہتے ہیں اور حکومتی اتحادیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ اور وقت کا اعلان وہ کسی دبائو میں آکر نہیں کریں گے۔ کیا اس پر مذاکرات نہیں ہوسکتے اور کوئی درمیانہ رستہ نہیں نکل سکتا۔

بدقسمتی سے خان صاحب نے جو بلاشبہ اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں کبھی اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کے ذریعہ معاملات سنبھلانے کی کوشش نہیں کی البتہ ان کی پارٹی میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، فواد چوہدری، علی محمد خان، اسد قیصر اور اسد عمر جیسے لوگ ہیں جو سیاسی معاملات کو سیاسی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔خواتین کے حوالے سے ویسے بھی ہمارا ’’مائنڈ سیٹ‘‘ منفی رہا ہے اب نہ زبان پر قابو ہے نہ بعد میں معذرت یا معافی کا رواج باقی رہا اب تو سیاسی مذاکرات دیکھے بھی عرصہ ہوگیا ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان فوری الیکشن چاہتے ہیں اور حکومتی اتحادیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ اور وقت کا اعلان وہ کسی دبائو میں آکر نہیں کریں گے۔ کیا اس پر مذاکرات نہیں ہوسکتے اور کوئی درمیانہ رستہ نہیں نکل سکتا۔عمران خان نے سیاسی مخالفین سے بات چیت کے ذریعہ معاملات سنبھلانے کی کوشش نہیں کی البتہ ان کی پارٹی میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، فواد چوہدری، علی محمد خان، اسد قیصر اور اسد عمر جیسے لوگ ہیں جو سیاسی معاملات کو سیاسی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک بے وقت کی راگنی تھی۔ خوف کسی کی تقرری کا تھا یا اپنے نااہل ہونے اور سزا کا مگر اس کی بھینٹ پورا نظام چڑھتا نظر آرہا ہے۔تحریک عدم اعتماد آئینی عمل ہے مگر کیا یہ کسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا تو وہ نظر نہیں آئیہمیں ان وجوہات اور اسباب کو تلاش کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے سیاست میں انتہا پسندی کے رویے جنم لے رہے ہیں۔ انتہا پسندی اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ بعض اوقات تو ریاست بھی اس انتہا پسندی کے سامنے عاجز نظر آتی ہے اور اسے کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا 12 جنوری 1967ء پاکستان آبزرور میں ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں انہوں نے تحریر کیا ’’اگرچہ میں پیدائشی طور پر ایک زمیندار ہوں اور تعلیمی لحاظ سے ایک وکیل ہوں مگر سیاست مجھ میں جوش پیدا کرتی ہے اور میرے دل میں لازوال شمع روشن کرتی ہے۔ سیاست ایک اعلیٰ اور برتر سائنس ہے اور بہترین آرٹ ہے۔ سیاست شفاف ہونی چاہیے، یہ منفی رجحانات کی حامل نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ سیاست کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے سیاست سے سیاست کی ہے۔ ہم نے آرٹ کو تباہ کیا ہے۔ عوام اب ایسے سیاستدانوں پر ہرگز اعتماد نہیں کریں گے جو ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور لالچ و حرص کی وجہ سے اصولوں کو ترک کردیتے ہیں۔‘‘ذوالفقار علی بھٹو کی یادگار تحریر نصف صدی گزر جانے کے باوجود پاکستان کی آج کی سیاست پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے سیاسی نظام تبدیل نہیں کیا، البتہ مختلف اوقات میں ہم چہرے بدلتے رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب تک سیاسی نظام کو تبدیل نہیں کیا جائیگا، اس وقت تک سیاست مفادات کے اردگرد ہی گھومتی رہے گی اور اس میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔’’جناح کا ویژن آئینی نظام کو رائج کرنا تھا، علاقائی مفادات میں کشمکش اور تضاد کی بنا پر اداروں کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں تھا۔ علاقائی مفادات کی سوچ کے حامل مقتدر افراد فعال اور متحرک ریاست کے قیام کی بجائے اپنے مفادات اور ذاتی اقتدار پر مفاہمت کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ جن سیاستدانوں کو ریاست ٹرانسفر ہوئی انہوں نے اپنے محدود مفادات کو ترجیح دی اور قوم کو اپنے مقدر اور بد قسمتی کو اندھیرے میں اِدھر اُدھر ٹٹولنے پر چھوڑ دیا۔ اسکے نتیجے میں محمد علی جناح کے تصور اور نظریے کے مطابق پاکستان کی تشکیل کا مقصد آج تک پورا نہیں کیا جا سکا‘‘۔ یہ ہے وہ بنیادی سبب جس کی بنا پر پاکستان آج تک مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے جن میں مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے اگر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور کے مطابق پاکستان کے سیاسی انتخابی اور معاشی نظام کی تشکیل نو کر دی جاتی تو آج پاکستان بہت بہتر صورتحال میں ہوتا اور اسے مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا بڑا سبب جمہوری اور انتخابی نظام ہے جسے سماجی یعنی پورے سماج کیلئے اور روحانی یعنی اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم جمہوریت اور سیاست کو آئین اور قانون کی حکمرانی کے تابع نہیں کرتے اس وقت تک ریاست کی رٹ رائج نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی اور شدت پسندی کو ختم کیا جا سکے گا۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق بنانے کیلئے قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔ ایسی سفارشات پر اتفاق رائے قائم کیا جائے جن کے نتیجے میں جمہوری اصولوں کے عین مطابق صاف شفاف سیاست کا آغاز کیا جا سکے۔ وراثتی اور خاندانی سیاست ختم کی جا سکے اور ایسی سیاست کو رائج کیا جا سکے جس میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو اور پاکستان کے تمام افراد کو بلا تفریق بلاامتیاز سیاست میں حصہ لینے کے مواقع مل سکیں

50% LikesVS
50% Dislikes
WP Twitter Auto Publish Powered By : XYZScripts.com