”وجود زن سے ہے تصویر کاٸنات میں رنگ“
تحریر: قراةالعین خالد ( سیالکوٹ)
"وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ” یہ فقرہ اکثر سماعت کے دریچوں پر دستک دیتا ہے، لیکن ہم نے کبھی اس فقرے کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔ عورت جب ماں بنتی ہے تو اولاد کے لیے دعاؤں کا حصار کر دیتی ہے۔ اللہ نے اپنی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہہ دی ہے۔ بیٹی کے روپ میں عورت والدین کی عزت کی ضامن اور حیا کا پیکر ہوتی ہے۔ بہن کے روپ میں بھائیوں کے دکھ درد اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ بیوی کی صورت میں آدمی کا نصف دین ہوتی ہے، نیک بیوی مرد کے لئے دنیا کی بہترین متاع ہے۔ کائنات کا پہلا رشتہ، اللہ نے جو آدم اور حوّا کے درمیان قائم کیا وہ شوہر بیوی کا ہی تھا۔ عورت کے بغیر رشتہ نکاح کا وجود ناممکن ہے۔ عورت کو اللّٰہ نے مرد کے لیے باعث سکون بنایا ہے۔
بعثت سے قبل عورت کو پاؤں کی جوتی تصور کیا جاتا تھا۔ ایک عورت پر کئی مرد اپنا حق سمجھتے تھے۔ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی زندگی گزارنے کاحق نہیں تھا۔ وراثت میں کوئی حصہّ نہیں تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر اس کا باپ منہ چھپاتا پھرتا تھا گویا وہ رب کی تخلیق نہ ہوئی کسی انسان کی تخلیق ہو۔ اسے زندہ زمین میں گاڑھ دینے کو باپ درست تصور کرتا تھا گویا اللہ کی تقدیر اور فیصلے کو زمین میں گاڑھ آیا ہو۔ الحمداللہ! اسلام نے نہ صرف عورت کے وجود کو تسلیم کیا بلکہ اسے معاشرے میں مقام بھی عطا کیا۔ عدالتی گواہی کا حصہ بنا کر عورت کو معتبر کرنے والا ہمارا دین اسلام ہی تو ہے۔ راوی حدیث حضرت عائشہ نے بتا دیا کہ اسلام عورت کو علم پہنچانے کا حق دیتا ہے۔ حضرت خدیجہ نے ثابت کر دیا کہ عورت ایک بہترین تاجر بن سکتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو میدان جنگ کا منظر سامنےآتا ہے۔ جہاں عورتیں پانی پلاتی ہوئیں نظر آتی ہیں تو کہیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی ہوئیں۔ بہادری کی مثال دیکھنی ہے تو اسماء بنت ابو بکر ہمارے سامنے ہے۔ دشمنوں کی طاقت کی پرواہ کئے بغیر نہایت بہادری اور شجاعت سے رسول اللہﷺ کو کھانا پہنچاتی ہیں۔ حضرت سمعیہ اسلام کی پہلی شہید عورت جس نے دین کی خاطر اپنی جان گنوا دی۔ بعثت سے قبل عورت کو کوئی عزت کا مقام نصیب نہیں تھا مگر اسلام نے عورت کو شرف عزت بخشا کہ عورت کو اپنے عورت ہونے پر رب کی رحمت محسوس ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے عورت کا مقام سمجھایا۔ عورت ہر روپ میں قابل احترام ہے۔ وہ کاروبار کر سکتی ہے۔ جائیداد رکھنے کا حق اس کو اسلام نے دیا۔ عورت اظہار رائے میں آذاد ہے۔ عبادت کا حق رکھتی ہے۔ وہ حدود اللہ میں رہ کر سب کچھ کر سکتی ہے۔ اتنی آذادی کے باوجود اللہ نے معاش کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی بلکہ اس کو عظیم مرتبے پر فائز کر کے اسے نسلوں کی حفاظت کا ضامن بنایا، اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی۔ ماں ہو تو بیٹوں کی جنت اس کے قدموں میں رکھ دی۔ بیوی ہو تو مرد کے نصف ایمان کی ضامن قرار دی گئی۔ بہن کے روپ میں بھائی کی عزت کہلاتی ہے اور بیٹی ہو تو باپ کے گھر کی شہزادی بنا دی گئی۔ دراصل اسلام نے عورت کو خاندان کی ملکہ بنایا ہے اور مرد کے اوپر اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری ڈال کر عورت کو عزت بخشی ہے۔ افسوس ہے کہ آج کی چند نادان اور بے دین عورتیں کس مقام، عزت، حق اور برابری کی تلاش میں اپنے آپ کو گلیوں اور بازاروں کی زینت بنا رہی ہیں جبکہ اس کے مقام کا تعین تو رسول اللہﷺ پہلے ہی بتا چکے ہیں۔
اے مسلمان عورت! اٹھاؤ قرآن وحدیث اور پہچانو اپنے مقام کو۔ چند نادان عورتوں کی اندھی تقلید کو چھوڑ کر اپنی ذمہ داری کو سمجھو۔ کفار کی سازش کو سمجھو وہ تمھاری گودوں سے تمھاری اولادوں کو چھیننا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ تمھاری جنت برباد کرنا چاہتے ہیں۔
اے مسلمان عورت! اپنی آنکھیں کھولو شیطان کی سازش کو سمجھو وہ نکاح جیسے مقدس رشتے کو پامال کر کے تمھیں حقوق نسواں کا سبق پڑھا رہا ہے جبکہ اسلام نے تمھیں شوہر کے دل پر راج کرنے کا حق دیا ہے۔ تمھیں وہ تمام حق دیئے جو ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والے رب نے تمھارے لیے منتحب کیے۔
اے مسلمان عورت! کیا تم رب کے انتخاب پر مشکوک ہو؟ رب کے ہر حکم میں خیر ہے۔ اسلام سے دور مرد نے جہاں جہاں بھی عورت کی ہستی کو پامال کیا ہے تو وہ اس کی جہالت اور ذہنی فتور کا نتیجہ ہے، کیونکہ نہ میرا دین ایسا ہے، نہ میرے نبی کی سنت اور نہ ہی یہ رب کا فیصلہ ہے۔ جس معاشرے میں قرآن وسنت کا قانون لاگو نہیں ہوتا وہاں حقوق نسواں کے نام پر ایسی ہی بے دین ریلیاں نکلتی ہیں۔