ابدی زندگی کا راز
تحریر۔۔۔۔: سید شیعب الطاف (شعبہ قانون اسلامیہ یونیورسٹی)
انسان کی تعریف کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان ایک ایسا جاندار ہے جو خواہشات رکھتا ہے اور ان خواہشات کےحصول کی جدوجہد کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے. انسان اور فرشتوں میں بنیادی فرق "خواہش” کا ہونا ہے اسی معاملے کے متعلق مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
‘ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے’. خواہش کچھ اورنہیں ایک جذبہ کا نام ہے. قدرت نے اس بے لگام جذبے کو لگام دینے کے لیے ایک طرف عقل کے پہرے بٹھا دئیے تو دوسری طرف قانون کہ ذریعے بنی نوع انسان کو اس کے منفی اثرات سے محفوظ بنایا. وہ خواہشیں جن سے پورا معاشرہ متاثرہوسکتا ہے اسے جرم سے تعبیر کیا اور وہ خواہشیں جن سے معاشرے کا فائدہ ہو اسے کامیابی کی ضمانت ٹھہرا دیا لہذا اگر ہم یوں کہیں کہ یہ کائنات اور اسکے مابعد ہونے والے تمام عوامل اسی بنیادی انسانی جذبے "خواہش” سے متعلق ہیں تو غلط نہ ہوگا. اس کائنات میں جتنی بھی خوبصورتی ہے اس کے پس منظر میں کسی فرد، افراد یا معاشرے کی خواہش شامل ہے اور اس دنیا میں جتنی تباہی ہوئی ہے یا مستقبل میں ہوگی اس میں بھی خواہش کا گہرا دخل ہے. یہ آفاقی جذبہ خواہش ہی ہے جسکی بدولت کائنات میں روانی ہے. انسان کے عمل میں پنہاں جو چیز تحرک دینے والی ہے وہ خواہش ہی ہے. جتنی خواہش شدید ہوگی منزل اتنی ہی یقینی اور قریب ہوگی. ساری شریعت اور ہر شارع کی بعثت کا مقصد اسی ‘خواہش’ کو قانون کے تابع لانا ہے. خواہشیں ہی ہیں جو انسان کو بڑا بناتی ہیں اور خواہشیں ہی ہیں جو انسان کو بے وقعت کر دیتی ہیں. انسان کی غمی اور خوشی کا تعلق بھی خواہش سے منسلک ہے اگر خواہش پوری ہو گئی تو خوشی اور اگر نہ ہو سکی تو غم. عموماً انسانوں میں پائی جانے والی خواہشیں خوبصورتی، بلند حسب و نسب، دولت،طاقت ،کامیابی،معروف ہونا، صحت مند رہنا اور ابدی زندگی ہیں. بہت کم افراد ایسے ہونگے جو اس دنیا کو چھوڑ کر جانا چاہیں گے بلکہ عموماً تو ہر انسان جینا چاہتا ہے اور اس دنیا کو چھوڑنا نہیں چاہتا، اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ زمینیں خریدتا ہے پختہ اور دل آویز قسم کے گھر بناتا ہے، ہر چیز چاہتا ہے اسکی ملکیت اسکے نام ہو اسکا نام و رعب ودب دبا ہمیشہ قائم رہے. کئی لوگ مختلف طریقوں سےاس جبلی جذبےکے تابع بڑے کام کر گئے یعنی بادشاہ شاہجہان نے تاج محل تعمیر کرواکر اپنا نام ہمیشہ قائم رکھنے کا بندوبست کیا. نواب سر صادق محمد خان عباسی نے ملکہ وکٹوریہ کے نام سے ایک عظیم الشان ہسپتال بنا کے انکے نام کو امر کر دیا غرضیکہ ہر انسان اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا ہے کہ یا تو وہ خود ہمیشہ زندہ رہے اور اگر یہ ممکن نہیں تو اسکا نام لازمی قائم رہے جسکی خاطر وہ نت نئے افعال سر انجام دیتا ہے. اب ہمیشہ قائم رہنے کی خواہش کو جن لوگوں نے مادے منسوب کیا تو جب تک وہ چیز، وہ عمارت قائم رہے گی وہ نام رہے گا جیسے ہی وہ موہنجوداڑو کی شکل اختیار کرے گی تو نام تو کیا آثار بھی شاید ملیں مگر وہ لوگ جنہوں نے اپنی اس دائمی قائم رہنے کی خواہش کو غیر مادے یعنی افکار، ہنروفن وغیرہ سے منسوب کیا تو جب تک اس فکر کے ماننے والے، اس فن یا ہنر کے حامل افراد موجود ہیں اور اس کی منتقلی جاری رکھے ہوئے ہیں اسکے خالق کا نام زندہ رہے گا. آپ غور کریں تو نیوٹن کے نام سے ہر بچہ واقف ہے اسی طرح جتنے بھی مفکر آئے جنکے پیروکار موجود ہیں وہ فلسفہ اور اسکے بانی کا نام زندہ ہے اسی طرح فنونِ لطیفہ سے متعلق وہ فنکار جنہوں نے اپنا فن انسانوں کو سکھا دیا تو وہ جاری ہے اور وہ انسان ‘گرو’ کی حیثیت سے زندہ رہے گا. گذشتہ شب اسلامیہ یونیورسٹی آف بھاولپور کے زیر اہتمام محفل سماع کا انعقاد کیا گیا اس پروقار تقریب میں جن فنکاروں کو مدعو کیا گیا وہ استاد نصرت فتح علی خان کے بھتیجے تھے ان میں سے ایک تو شکل و صورت کے اعتبار سے بھی استاد نصرت فتح علی خان صاحب سے بہت ملتے تھے. ان مہمان قوالوں نے جتنے بھی کلام پڑھے وہ استاد نصرت فتح علی خان کے تھے. انہوں نے اس خوبصورتی کے ساتھ وہ کلام نبھائے کہ یوں لگتا تھا کہ خود استاد نصرت فتح علی خان صاحب موجود ہوں اور کلام پڑھ رہے ہوں. میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ استاد نصرت فتح علی خان صاحب کو اس دنیا سے رخصت ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے مگر انکا کام، انکا فن آج بھی زندہ ہے، تمام شرکاء محفل ان تمام کلاموں سے بے حد محذوذ ہورہے تھے جسطرح انکی زندگی میں ہوتے ہونگے ایسا کیوں ہوا کیونکہ انہوں نے اس فن کو اپنے احباب کو سکھا دیا جسکی وجہ سے آج تک وہ فن بھی زندہ ہے اور اس سے منسوب اسکے استاد کا نام بھی زندہ ہے. استاد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ بادشاہ بنانے والا ہوتا ہے لہٰذا ہمیشہ قائم رہنے کی خواہش اگر ہے تو اس کے لیے چاہیے کہ ہم تحقیق کریں، ہنرحاصل کریں اور پھر اس تحقیق کے نتیجے میں بننے والے افکار اور حاصل شدہ ہنر میں مہارت حاصل کرکے انسانوں کی زندگی میں بہتری لائیں آسانی پیدا کریں یہی وہ عمل ہے جسکے نتیجے میں آپکا نام جب تک دنیا ہے قائم رہے گا
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور…