بادشاہ سلامت زندہ باد
![بادشاہ سلامت زندہ باد 1 rana imran](https://youthvision.pk/wp-content/uploads/2021/12/rana-imran-509x630.jpg)
تحریر ۔۔۔ رانا عمران امین
ایک بادشاہ کے دور میںایک تندور والا 5روپے میں روٹی بیچتا تھا۔روٹی کی قیمت بڑھانے کی خواہش رکھنے کے باوجود وہ ایسا بادشاہ سلامت کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتا تھا۔اُس کے واقف وزیر نے ایک دن اُس تندور والے کی بادشاہ سلامت سے ملاقات کروا دی۔تندور والے نے پہلے تو بادشاہ کے سامنے اپنے رونے روئے اور پھر عرض کی کہ اُسے روٹی کی قیمت 10روپے کرنے کی اجازت دی جائے۔بادشاہ سلامت نے شان بے نیازی سے کہا کہ تم 30کر لو۔یہ سن کر تندور والے نے پریشان ہو کر کہاکہ اس طرح تولوگ شور مچائیں گے ۔مگر بادشاہ گرج کر بولاٴٴاس بات کی تم فکر نہ کروٴٴ۔اگلے دن سے روٹی کی قیمت 30روپے ہو گئی جس سے شہر میں کہرام مچ گیا۔لوگ بادشاہ کے پاس گئے اور تندور والے کی شکا یت کی۔ بادشاہ نے سپائیوں کو حکم دیا کہ ظالم تندور والے کو پکڑ کر لائو۔وہ جیسے ہی دربار میں پیش ہوا ،توبادشاہ نے غصے سے کہا ٴٴیہ رعایا میری ہے جسے تم بھوکا مارنا چاہتے ہو اور تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ مجھ سے پوچھے بغیر روٹی کی قیمت بڑھا دو؟ٴٴ۔بادشاہ نے مزید حکم دیا کہ کہ تم کل سے آدھی قیمت پر روٹی بیچوگے ورنہ تمہاراسر قلم کر دیا جائے گا۔بادشاہ کا حکم سن کر رعایا نے اُونچی آواز میں نعرہ لگایا ٴٴبادشاہ سلامت زندہ بادٴٴ۔اگلے دن سے روٹی 30کی بجائے 15کی بکنے لگی۔ یوں عوام بھی خوش،تندور والا بھی خوش اور بادشاہ کی بلے بلے۔ یاد رہے کہ1947ئ میں قربانیوں کی لمبی داستان رقم کرنے کے بعد ایک ارض پاک حاصل کرنے کا مقصد عوامی فلاحی ریاست قائم کرنا تھا جہاں اللہ اور اُس کے نبی ۖ کا حکم نافذ ہو۔ مگر بد قسمتی سے ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ اشرافیہ کی نا انصافی اور کرپشن نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی،ذاتیات سے باہر نکلنے پر کوئی بھی راضی نہ ہوا،چاہے وہ عوامی رہنما تھا،سرکاری بندہ تھا یا عام آدمی۔اس بد انتظامی اور نفسا نفسی کی فضا قائم کرنے میں ہماری سیاسی اورمذہبی قیادت کے علاوہ بیوروکریسی بھی برابر کی شریک ہے۔حضرت علی ۮ کا قول مبارک ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ناانصافی والا نظام نہیں چل سکتا۔ نامور فلاسفر کنفیوشس سے کسی نے سوال کیاٴٴ کسی بھی معاشرے کی بنیادیں تین چیزوں پر کھڑی ہوتی ہیں ۔اول دفاع،دوم معیشت،سوم انصاف۔ا گر کسی مشکل وقت میںان میں سے کسی ایک کی قربانی دینی پڑے تو کس کی دی جاسکتی ہے؟ٴٴ۔ کنفیوشس نے فوراً کہاٴٴمعیشتٴٴ۔سوال والے نے مزید کہا کہ اس کے بعد کس کی باری ہو گی؟۔اس پر کنفیوشس نے کہا کہ پھردفاع قربان کیا جا سکتا ہے۔سوال کرنے والے نے حیران ہو کرکہا کہ اس طرح تو قوم بھوکی مر جائے گی اور دشمن حملہ کر کے قبضہ کر لے گا۔کنفیوشس نے بہت عمدہ جواب دیاٴٴانصاف والے معاشرے کے لوگ اپنی حکومت پر اعتبار کرتے ہوئے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے دشمن کا مقابلہ کرلیں گےٴٴ۔پچھلے دنوں ایک بدترین واقعہ پیش آیا جس میں وکیل حضرات نے ڈسٹرکٹ کنزیومر کورٹ کے ڈسٹرکٹ جج رائو عبدالجبار کو پہلے یرغمال بنا لیا اور پھر مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ محترم جج رائو عبدالجبار نے مقامی ڈپٹی کمشنر اور اے سی کو ایک مقدمے کی کاروائی سنتے ہوئے تین تین ماہ کی قید سنائی تھی جس پر مقامی بار کے صدر نے ان ملزم افسران کا وکیل بنتے ہوئے جج صاحب سے پہلے بحث کی اور بعد ازاں اپنے ساتھی وکلائ کی مدد سے معزز جج کو کرسی سے اُٹھا کر بد تمیزی کی۔ عدالتوں میں معزز جج حضرات سے اس طرح کے سلوک کی ایک مہذب معاشرے میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ رویہ اس قدر قابل افسوس ہے کہ پورا پاکستان اب اس سوچ میں ڈوب گیا ہے کہ کیا کالاکوٹ کبھی اپنے تقدس کو بحال کر پائے گا؟۔کیا قانون کے رکھوالے خود ہی قانون توڑنے والے بن چکے ہیں ؟۔کیاا س واقعہ کے ذمہ داروں کو کبھی کیفر انجام تک پہنچایا جائے گا؟۔اب معزز بار کونسلز اور عدالتوں کا فرض بنتا ہے کہ ایسے اقدامات اُٹھائیں جن کی بنیاد پر مستقبل میں ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ورنہ ماضی کی طرح بار کونسلز اور عدلیہ کا ایسے واقعات پر ٴٴبادشاہ سلامت زندہ بادٴٴ والا ردعمل مزید خطرناک نتائج کا سبب بنے گا۔اگرچہ اس طرح کے واقعات پچھلے چند سالوں سے تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں مگر افسوس کہ وکلائ برادری کے نمائندہ گروپس اب تک ان کی روک تھام میں ناکام رہے ہیں ۔بادی النظر میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ وکلائ برادری کے سینیئر لوگ سیاسی وابستگیوں کے زیر اثر اور الیکشن میں ناکامی کے ڈر سے جان بوجھ کر اس غلط رویے کو درست کرنے میں سنجیدہ نظرنہیں آتے ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ آزاد عدلیہ کی فہرست میں پاکستانی عدلیہ 128ممالک میں120نمبر پر ہے۔لائ اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 19لاکھ سے زائد مقدمے مختلف عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر ہیں اور ان میں کئی مقدمے ایسے ہیں کہ جن کو پچیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر عدالتی فیصلہ اب تک نہیں ہو سکا۔یہ اعدادو شمار معزز عدلیہ کے لیے بھی چیلنج ہیں کہ وہ اپنا احتساب کریں اور عدالتی نظام میں حائل مشکلات کو ختم کریں تاکہ سائلوں کو عدالتی ریلیف جلد مل سکے اور مجرم اپنے انجام کو بھی جلد پہنچیں۔ دوسری طرف ہماری حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ آزاد فیصلے سنانے کے لیے جج صاحبان کو تحفظ فراہم کرے اور پارلیمنٹ میںعدالتی نظام کی بہتری کے لیے مناسب قانون سازی کرے۔