ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس،حکومتی اتحاد کا عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان
اسلام آباد(واصب غوری سے ) – سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں حکومتی اتحاد نے فل کورٹ نہ بنانے پرعدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا ہے، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ تین رکنی بنچ کی بجائے فل کورٹ تشکیل دی جائے، لیکن بنچ نے غیرجانبدارانہ حیثیت سے مطالبے پر غور کرنے کی بجائے مسترد کردیا ، اب ہم عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے حکومتی اتحاد کے رہنماؤں اور وزراء کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے تین رکنی بنچ کی بجائے فل کورٹ تشکیل دی جائے، کیونکہ ہمیں تین ججز کے ماضی کے فیصلوں کی وجہ سے اب کا فیصلہ بھی جانبدرانہ تصور کیا جائے گا، اس لیے فل کورٹ کی تجویز دی تھی، وکلاء نے آئین قانون کے مطابق بنچ کو فل کورٹ کا مشورہ دیا، لیکن بدقسمتی سے بنچ نے ایک غیرجانبدار کی حیثیت سے ہمارے مطالبے پر غور کرنے کی بجائے مسترد کردیا ہے، اور کہا کہ فیصلہ تین ججز پر مشتمل بنچ ہی کرے گا، آج حکومتی اتحادی جماعتیں واضح مئوقف دیتی ہیں اگر فل کورٹ نہیں بنایا جاتا تو عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، ہم اس کیس کے حوالے سے بنچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، مقدمے کا بائیکاٹ کریں گے، ایک لمبی تاریخ ہے سیاسی نظام میں عدلیہ کے فیصلوں نے حکومتی نظام میں اضطراط پیدا کیا اور معاشی بحران پیدا کیا گیا، حکومت اب اس تسلسل کو توڑنا چاہتی ہے۔
اداروں کو اس طرح کے اضطراب پید اکرنے سے کی کوشش نہ کی جائے، حکومت کو تجویز دیتے ہیں اداروں اور عدلیہ سے متعلق بھی اصلاحات کی جائیں گی۔چیئرمین پیپلزپارٹی اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اس کیس کو سارے ججز بیٹھ کر سنیں، کیونکہ یہ کیس پارلیمنٹ سے متعلق ہے، جب آپ ایک ادارے کے بارے میں فیصلہ دے رہے ہیں تو پھر عدالت کا بھی تمام ججز کو بیٹھ کر کیس سننا چاہیے، جب یہ مطالبہ نہیں مانا جا رہا ہے تو پھرپیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتیں سپریم کورٹ کی کاروائی کا بائیکاٹ کرے گا۔
ن لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اب امتحان سپریم کورٹ کا ہے، جب ایک جج یا بنچ پر انگلی اٹھا دی جائے تو ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کو اس بنچ سے الگ کرلیں، یہ آئین قانون کی بالادستی کیلئے ضروری ہے، دنیا میں آئین قانون کی بالادستی کیلئے عدالتیں اسی طرح فیصلے کرتی ہیں