ڈاکٹر کی ڈائری ،راج نیتیی
تحریر۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسد امتیاز ابو فاطمہ
میں گزشتہ دو سال سے تقریباً نان پولیٹکل شخصیت ہو چکا تھا کیونکہ فاطمہ اسد ویلفیئر پروگرام کی صورت میں سماجی و انسانی خدمت کی جس راہ پہ اب مجھے چلنا تھا اس راہ پہ سبھی ایک سا درد دل رکھتے ہیں چاہے کسی بھی سیاسی پارٹی سے ان کا تعلق ہو ۔۔۔
میرا شہر گوجرانوالہ روایتی طور پہ ن لیگ کا گڑھ رہا ہے
مطلب آپ اندازہ کرلیں کہ گوجرنوالہ سے پی ٹی آئی کا ایک بھی ایم پی اے یا ایم این اے نہیں ہے۔۔
گو گوجرنوالہ کے پڑھے لکھے طبقہ کو ن لیگ رہنماؤں سے شدید شکوہ ہے کہ چالیس پچاس لاکھ کی اس آبادی کے بچوں کے لئے کوئی یونیورسٹی اور ہسپتال نہیں ہے حتی کہ گجرات اور سیالکوٹ جیسے چھوٹے اضلاع میں ہے اور یہ کام بُزدار سرکار بھی گوجرنوالہ میں الیکشن نعرہ و ببانگ اعلانات کے باوجود بھی نہ کر سکی۔۔۔
چاہے مجھے کوئی پٹواری کہے یا تحصیلدار لیکن پہلے ڈائری ضرور آخر تک پڑھ لے کیونکہ میں ڈاکٹر کی ڈائری میں سچ اور سچ کے سوا کچھ نہ لکھنے کا عزم کر چکا ہوں چاہے سامنے میری “دِلرُبا”ہی کیوں نہ ہو۔۔جس سے میں واقعی ڈرتا ہوں ورنہ میں ڈرتا ورتا نیئں اوں اچھا ۔۔
ہماری ساری فیملی سالہا سال سے ن لیگ کی سپورٹر رہی اور خرم دستگیر کو ووٹ ڈالا جاتا،امریکہ سے پڑھا انجینئر ہے اور بظاہر کوئی کرپشن کا چارج بھی نہیں ان پر،کلینک آتے جاتے دیکھتا ہوں شہر کے لوگوں کے کیلئے دروازے کُھلے رہتے ہیں دستگیر ہاؤس کے۔۔
میں نے بھی انہیں ہی ووٹ دیا تھا اور آپ جانتے ہیں کہ تھوڑی بہت “سلیکشن “ کے باوجود بھی پچاس ہزار کی لیڈ سے جیتے تھے کیوں کہ مخالف امیدوار پیپلز پارٹی سے تازہ تازہ امپورٹ ہوئے تھے تو اب آپ ہی بتایئں کدھر جاتے۔۔۔
مشہور ن لیگی رہنما پومی بٹ صاحب کی والدہ عرصہ آٹھ سال میری پیشنٹ رہیں،وہ اور انکی ساری فیملی کلینک کے باہر گھنٹہ گھنٹہ بیٹھی رہتیں بٹ صاحب نے ذاتی تعلق ہونے کے باوجود بھی کبھی پروٹوکول ڈیمانڈ نہیں کیا تھا اور میں نے انہیں اور انکے گھر والوں کو ہمیشہ ڈاؤن ٹو ارتھ پایا،جبکہ اگر ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن سے کسی سرکاری افسر یا پولیس افسر نے آنا ہو تو سارے کام چھوڑ کر انہیں دیکھو ۔۔۔۔۔
لیکن اللہ جانتا ہے کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو اندر سے چپکے چپکے میں بھی خان صاحب کی کامیابی کیلئے دعا گو تھا کہ شاید ہماری قسمت بدل ہی جائے،اللہ کرے کہ وہ اتنا اچھا پرفارم کریں کہ میں اپنی سیاسی وابستگی بدلنے پہ مجبور ہو جاؤں,کیونکہ کوئی احمق نادان ہی اپنے ہی ملک کی حکومت کو فیل ہوتا دیکھنا چاہے گا چاہے جس بھی پارٹی کی ہو
Because we fall together & we can rise together
اللہ جانتا ہے کہ میں نے خان صاحب کا موازنہ خان صاب سے ہی کیا کسی اور سے نہیں کیونکہ وہ تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے اور ان کا موازنہ سٹیٹس کو سے نہیں کیا جا سکتا تھا گو مجھے ہمیشہ سے یہ ادراک تھا کہ
انکا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ اوپر لیڈر ٹھیک ہو تو عوام خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے،عوام کی اخلاقی و معاشی حالت میجک سٹک پھیرنے سے کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو گی کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے قرآن مجید میں ؛
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوۡمٍ سُوۡٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۚ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّالٍ ﴿۱۱﴾
کسی قوم کی حالت اللہ تعالٰی نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے اللہ تعالٰی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ بدلا نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں ۔
اور یہ کہنا کہ خان صاحب یہ تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئے بلکل غلط ہے،وہ کامیاب رہے،انہوں نے ہمارے ذہنوں کے بہت سے بُت توڑے،کم از کم میں نے تو اتنا Resilient انسان زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا
اور عملی و ریاستی طور پہ بھی بہت سے ایسے یونیک اقدامات کئے جو کہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہ ملے تھے چاہے وقتی طور پہ ان کا فائدہ ہوا یا نقصان ۔۔
خاص طور پہ اس معاشرے میں ٹیکس کولیکشن کی اہمیت کو اجاگر کرنا جہاں سہولتیں تو یورپین سٹینڈرڈ کی مانگی جاتی ہیں پر ٹیکس دیتے ہوئے ہمیں موت پڑتی ہے اور دوسرا اوورسیز پاکستانیز کی اہمیت کو اجاگر کرنا جو بلیئنز کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں اپنی محنت کی کمائی سے جسکی بیس پہ ہی ہمیں آئی ایم ایف سے قرضہ ملتا ہے اکنامک سروائیول کیلئے اور خاص طور پہ روشن پاکستان اکاونٹ کا اجرا۔۔۔
لیکن بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ بعض دفعہ اللہ تعالی کی گرینڈ سکیم آف آزمائش میں چھوٹی چیزوں کا وقتی نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ کرونا آ گیا جس نے پوری دنیا کو انفلیشن اور مہنگائی سے دوچار کر دیا لیکن پاکستان میں تو حد ہی ہو گئی وہ اس لئے کہ تنخواہ دار مزدور طبقہ کی تنخواہ تو وہی رہی پچیس سے تیس ہزار اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا کہ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے بہت سوں کو۔۔
پناہ گاہیں اور لنگر خانے بھی خان صاحب کی لائی ہوئی تبدیلی کا نشان ہیں گو بہت سے لوگ اس احساس کا مزاق اڑاتے اور مخالفت کرتے نظر آتے ہیں ۔۔
کہ جی لنگر خانوں کی بجائے کارخانے لگانے چاہئے تھے
تو بھائی دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہو سکتے کیا۔۔
اب کارخانوں کے پیسے نہ ہوں تو لنگر خانے بھی نہ بنائیں کیا،وہاں کھانا تو مُخیر حضرات ہی اللہ کے دئے سے دیتے ہیں کونسا حکومت دیتی ہے ۔۔۔
اور کھانا کھلانا تو بعد کی بات ہے کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا یا مخالفت کرنا جہنمیوں کا وصف بیان ہوا ہے سورہ الفجر میں ۔۔
وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ۙ۱۸﴾
اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے ۔
آپ یقین کریں فاطمہ اسد دسترخوان پناہ گاہ سول ہسپتال پہ ایک چنے چاول کی بارہ کلو کی دیگ ہمیں پینتالیس سو میں ملتی تھی یعنی ایک دیگ کا ایک ماہ کا تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار اور اب بڑی مشکل سے پینسٹھ سو میں یعنی ایک دیگ بمعہ کرایہ دو لاکھ میں ۔۔
میرے خیال میں یہ مہنگائی کا طوفان کسی طرح کنٹرول ہو جاتا تو آج عوام سڑکوں پہ ہوتی ۔۔۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خان صاحب ناکام ہو گئے یا انکی گیم اوور جیسا کہ ہمارے پی ٹی آئی کے ہارڈ لائن سپورٹرز دُکھی ہیں،اللہ جانتا ہے کہ مجھے بھی خان صاحب کے اسطرح جانے کا دُکھ ہے وہ ہر پاکستانی کی طرح میرے بھی ہیرو ہیں لیکن اگر مجھ جیسا اعتدال پسند سیاسی سوچ رکھنے والا شخص ملک اور خان صاحب کے مستقبل کے حوالہ سے مایوس نہیں ہے تو بھائی آپ کیوں مایوس ہو رہے ہو یار ۔۔۔
سب سے پہلے تو دعا کریں کہ چلیں جو کمی بیشی خان صاحب سے رہ گئی ہے اللہ نئی حکومت کو توفیق اور اسباب دے دے کہ وہ کم از کم اس مہنگائی پہ قابو پا لے اور یہ کہنا کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی ہے میرے نزدیک بلکل غلط ہے۔۔
یہ خان صاحب کا ہی کہنا ہے ؛
اللہ جسے چاہے جب چاہے ہدایت دے دے۔۔
تو اس ہدایت کی چاہت اور عطا کو صرف اپنی میراث ہی سمجھ لینا غلط رویہ ہے ۔۔۔
وہ عبادت والوں کا ہی نہیں ندامت والوں کا بھی رب ہے۔۔۔
تسلی رکھیں خان صاحب نے ہی کہا تھا کہ وہ حکومت کی بجائے اپوزیشن میں رہ کر زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں اگر حکومت عوامی امنگوں کے مطابق پرفارم نہ کرے۔۔۔
میں تو اس راج نیتی کے کھیل سے یہی سمجھا ہوں کہ یہاں کچھ بھی حرف آخر نہیں ؛ مطلب ۔۔
Who would have thought
کہ میاں صاحب کبھی دوبارہ پاور میں آیئں گے انکے لئے یہ چوتھی دفعہ کا موقع ہو گا ۔۔۔
مت بھولیں کہ سیاستدان عام لوگ نہیں ہوتے یہ معاشرے کے دس فیصد خواص میں سے ہوتے ہیں انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک
They are not like us they can take immense pressures…
They are used to it but we are not …
درمیان میں صرف ایک سال ہی ہے باقی کے چھ ماہ تو اگلے الیکشن کی تیاری میں گزر جانے ہیں ۔۔۔
خدارا جذبات میں آ کر اپنے ہی دوست احباب اور اپنے ہی اداروں کو برا بھلا نہ کہیں،مت بھولیں کہ انہیں اداروں نے خان صاحب کا بلکل اسی طرح بھر پور ساتھ بھی دیا تھا۔۔۔
یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔۔
اب ہمارے پاس دونوں طرف کی پرفارمنس کا تقابلی جائزہ لینے کیلئے کافی ٹائم ہے ۔۔۔
خان صاب عوام کو بہت سیاسی شعور دے گئے ہیں
عوام اب لالی پاپ سے بہلنے والے نہیں ۔۔۔
The Game is ON…..No Despair