انسانی حقوق اور ہماری ذمہ داری
از قلم: محمد رفیق بگٹی
اگر انسانی حقوق کی صحیح معنوں میں تشریح کی جائے تو انسانی حقوق آزادی کی بنیادی ضرورت اور شرط ہے۔
جن کو قانونی تحفظ حاصل ہے جو ہر انسان کو حق ہے۔
یہ ہمارے زندگی کے انفرادی, سیاسی, شہری, روحانی, سماجی, معاشی, اور ثقافتی پہلوؤں کی جانب توجہ دلاتی ہے۔ تعریف کی رو سے انسانی حقوق ایک وسیع مضمون ہے اور اِس بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ خصوصی طور پر ایسے کونسے حقوق ہیں جو انسان کا بنیادی حق مانے جائیں یا رد کر دیئے جائیں۔ خطوں, معاشروں اور ترقی کی اشکال تبدیل ہوتی ہے۔ اِسی وجہ سے یہ موضوع دنیا بھر میں نشانہ بنتا رہتا ہے۔
انسانی حقوق کا جدید تصور دوسرے جنگِ عظیم کے بعد ترتیب دیا گیا اسکے بعد اقوام متحدہ نے 10 دسمبر 1948 کو تیس انسانی بنیادی حقوق (Basic human rights) پیش کیے جس میں All human beings are free and equal پہلے نمبر پر ہے اور right to life تیسرے نمبر پر ہے۔
آج اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمیں Right to life حاصل ہے ؟
آج میں دور نہیں اپنے ہی ملک اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے ایک ضلع, ڈیرہ بگٹی کے تین دِل دہلا دینے والے واقعات سناتا ہوں جو کے میرے سامنے انسانی حقوق کی پامالیوں کے ساتھ ساتھ اِنسانیت بھی ختم ہونے کو ملی۔
زیادہ دور نہیں 2021 میں ہی تحصیل سوئی کے رہائشی ایک غریب شخص سے اُس کے بچے نے عید کے لیے نئے کپڑوں کی فرمائش کی تو اُس مجبور اور لاچار شخص کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کے وہ عید کو بھی اپنے بچے کو خوش کر سکے اور رات ہونے کی دیر تھی کے اپنے بچے کی خواہش کا سوچ سوچ کے خود کو پھانسی کے بھینٹ چڑھا دیا۔
رکو, 2022 میں ہی ضلع ڈیرہ بگٹی کے تحصیل پیرکوہ میں ایک مہینے بارش نہ ہوئے تو پیاس کی وجہ سے چوبیس انسانی جانیں چل بسے, سوچنے کی بات ہے کہ وہ ضلع ڈیرہ بگٹی , جس کے چار گیس کمپنیوں کی وجہ سے لاہور , کراچی اور فیصل آباد کی فیکٹریاں چلتی ہیں اور اُس ضلع کے لوگ اُن بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں کہ جس سے وہ زندہ رہ سکیں۔
پچھلے مہینے جنوری 2023 کی بات ہے کہ 13سال کا نوجوان راجو بگٹی ضلع ڈیرہ بگٹی کے شہر سوئی کا رہائشی ہے اور شہر کے ایک کونے میں بیٹھ کر لوگوں کے جوتے پولش کرتا ہے۔ گزشتہ روز دیہاڑی نہ لگنے پر گھر پہنچ کر ماں سے روٹی یا پیسے طلب کیے کہ کچھ خرید کر اپنے خالی پیٹ کی آگ بجھا سکے لیکن غریب ماں بچے کو گھر بٹھا کر پڑوسیوں کے گھر کچھ مانگنے گئی ہے۔
ماں نے ذرا سی دیر کیا کر دی کہ بچے نے بھوک سے نڈھال ہو کر پھندے پر خود کو لٹکا دیا, سوچو وہ ماں جب واپس گھر آئی ہوگی تو اُس کے دِل پر کیا گزرا ہوگا۔
جانور بھی اپنے بچے کو بھوک کی وجہ لٹکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تو سوچو ایک ماں نے اپنے لخت جگر کو لٹکتے ہوتے دیکھ کر اُسکی چیخ و پکار نے کہاں کہاں تک سنائی دی ہوگی۔ اللّٰہ اکبر
تین واقعات جب میرے اپنے ہی شہر میں میرے آنکھوں کے سامنے سے گزرے تو مُجھے ریاستِ مدینہ والی وہ بات یاد آئی جس میں حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی۔ یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو ہم کچھ لوگوں کو انسان ہی نہیں سمنجھتے یا اِن انسانی حقوق کو انسانی حقوق نہیں , جِس کی لاٹھی اُسکے حقوق کا نام دیا جائے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جِس پر لاکھوں درور و سلام, انہوں نے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو, جِس میں ہر مذہب کے لوگ آتے ہیں اُن کو اُن کے حق دلائے۔ کاش ہم اُن کے ہی بتائے ہوئے راستے پر چلتے تو آج دنیا کی بنیادی حقوق تو کیا ہم پوری دُنیا میں شہنشاہی کرتے , اِن تمام مشکلات کی وجہ صرف اور صرف اُنکے بتائے ہوئے راستے سے دوری ہے۔
آج ہم جس عہد میں زندگی گزار رہے ہیں بہ ظاہر اس کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کرسکتی ہے لیکن بہ نظر غائر دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ ظرف اور زماں کی ہزار تبدیلیوں کے باوجود”انسانیت“ دم بہ دم خیروفلاح سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے،ا قصائے عالم میں رفتہ رفتہ ایک عالمگیر جاہلیت، کا اثر ونفوذ بڑھتا چلا جارہا ہے بہ قول ایک مصنف انسانوں نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا,مچھلیوں کی طرح پانی میں تیرنا سیکھ لیا؛لیکن آدمیوں کی طرح زمین پرچلنا بھول گئے۔ ایک دوسرے کے حقوق بھول گئے۔
آخر میں بتاتا چلوں, اللّٰہ پاک حقوق اللّٰہ معاف کر دینگے لیکن حقوق العباد نہیں۔