تکبر جھنگ کی سیاست اور قدرت کے فیصلے
تحریر: علی امجد چوہدری
اگر 2009 میں تحصیل شورکوٹ اور جزوی تحصیل جھنگ میں بھروانہ گروپ کے افراد سے پوچھا جاتا تو ان کے لہجے رعونت سے بھرپور ہوا کرتے تھے صاحبزادہ محمد نزیر سلطان اور صاحبزادہ گروپ کے حوالے سے پوچھا جاتا تو رعونت بھرا جواب ہوتا تھا کہ صاحبزادہ گروپ قیامت تک بھروانہ گروپ سے نہیں جیت سکتا ان کا خیال تھا کہ بھروانہ گروپ اور صاحبزادہ گروپ کے درمیان واضح فرق اتنا ہے کہ یہ کبھی بھی پورا نہیں ہو گا اور یوں بھروانہ گروپ کی شخصیات کے لہجوں میں رعونت بھی تھی اور صاحبزادہ گروپ کے لیئے تمسخر بھی (صاحبزادہ گروپ سے طویل عرصے سے وابستہ شخصیات کو یہ سب کچھ یاد ہوگا باقی ٹرلو مرلو کیا یاد رکھیں گے کیونکہ ان کے آقا وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں )تھا پھر اللہ نے اس رعونت کو ایسے توڑا کہ وہی بھروانہ گروپ 2018 تک اتنا سکڑ چکا تھا کہ ایک نووارد امیر عباس خان سیال سے بھی پیچھے تھا اور چوتھی پوزیشن اس کا مقدر ٹھہری اب آجاتے ہیں 2002 میں مخدوم فیصل صالح حیات صاحب تحصیل احمد پور سیال اور تحصیل اٹھارہ ہزاری پر مشتعمل قومی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار تھے اس وقت صاحبزادہ محبوب سلطان اس حلقے میں بالکل نئے تھے اور مخدوم گروپ بہت ہی طاقتور تھا مخدوم گروپ کے افراد اس وقت ازراہ تمشخر کہا کرتے تھے ایہہ بچونگڑ مخدوم سائیں دا مقابلہ کریسی پھر اس بچونگڑ نے مخدوم فیصل صالح حیات جیسی قد آور شخصیت کو الٹا کر رکھ دیا اب آ جاتے ہیں 2013 میں مرحوم نجف عباس خان صاحبزادہ محبوب سلطان کے مدمقابل تھے اور صاحبزادہ گروپ مرحوم نجف عباس خان سیال کو اسی طرح سیاسی طور پر بونا سمجھ رہا تھا جیسے 2009 میں بھروانہ گروپ صاحبزادہ گروپ کو سیاسی طور پر اہمیت نہیں دیا کرتا تھا بنگلہ یاسمین میں سابق چیئرمین مہر نذر حسین وجھی کی میزبانی میں انتخابی جلسہ تھا اس وقت صاحبزادہ محبوب سلطان اپنے حریف مرحوم نجف عباس خان کو بس اتنی سی اہمیت دے رہے تھے کہ انہوں نے کہا کہ اگر ان کا مدمقابل 30000 سے کم مارجن سے ہارا تب بھی وہ اپنی شکست سمجھیں گے مگر یہاں تیس ہزار سے شکست دینا تو دور کی بات خود بری طرح پٹ گئے اب آ جاتا ہے 2018 اس الیکشن میں پولنگ سے بیس پچیس روز قبل تک مخدوم فیصل صالح حیات اور صاحبزادہ محبوب سلطان کے درمیان تقریبا تیس سے پینتیس ہزار ووٹ کا فرق تھا اس فرق کا صاحبزادہ گروپ کو بھی اندازہ تھا اور مخدوم گروپ کو بھی پھر دربار حضرت سلطان باہو پر مخدوم فیصل صالح حیات کا جلسہ رعونت بھری باتیں اور دوران الیکشن نجی محافل میں صاحبزادہ گروپ کے بارے تمسخر نے یہ پینتیس ہزار کا فرق بھی ختم کر ڈالا اور مخدوم صاحب یہ یقینی الیکشن ہار گئے
الیکشن جاری ہے رعونت اور تمسخر موجود ہے اور یہ سیٹ اس بار صاحبزادہ گروپ سنبھال چکا ہے رعونت اور تمسخر ویسے ہی ہے جیسے پہلے گروپس کے پاس تھا بس رعونت اور تمسخر والے چہرے بدلے ہیں مگر یہ رعونت بربادی میں بدلنے والی ہے جیسے ماضی میں بدلی ہے کیونکہ سدا بادشاہی میرے رب کی ہے