رابی پیر زادہ کی رب سے تعلق کیسے جُڑا !؟
یوتھ ویژن : رابی پیر ذادہ نے ٹوئٹر پر اپنی زندگی کے بارے میں ایک پیغام جاری کیا کہ وہ کیسے اپنی دنیاوی زندگی چھوڑ کر رب کی طرف لوٹ آیئں۔
انہوں نے مذید بتایا کہ میں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور گلوکارہ 2005 میں کیا، اپنے پہلے گانے کی بے پناہ مقبولیت نے میرے لئے فن اور تفریح کی دنیا میں کئی راستے ہموار کر دئیے لہذا میں نے اپنے فن کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور دن رات کی لگاتار محنت کے بعد چند سالوں میں کئی البم ریلیز کر دئیے۔ مجھے اپنے گانوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بہت پزیرائی ملی اور پہلے گانے کی ریلیز کے اگلے سال ہی مجھے بیسٹ امرجنگ ٹیلنٹ (Best emerging talent) کا ایوارڈ ملا، اس سے پورے امریکہ، کینڈا، یورپ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور بہت سے ممالک میں میرے لئے کانسرٹس کے راستے کھل گئے۔ اسی دوران مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے ایک وقفہ لینا پڑا اور میں نے سافٹ وئیر انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
شوبز میں ہوتے ہوئے بھی میرا دین سے رابطہ کبھی ختم نہیں ہوا، فرائض و واجبات ادا کرنے کی ہمیشہ پوری کوشش ہوتی تھی۔ میں شائد واحد گلوکارہ تھی جو گانا گانے کے ساتھ نماز، روزہ اور قرآن پاک کی تلاوت کی پابندی بھی کرتی تھی، کیونکہ رمضان ٹرانسمیشن کے پروگرامز میں اکثر رمضان المبارک کا تقدس پامال ہوتے دیکھ کر مجھے احساس ہوتا تھا کہ یہاں شائد میں ہی روزہ سے ہوں۔ دنیا کی رنگینیاں کبھی بھی میرے دین کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ کشمیر، فلسطین اور دیگر مسلم ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ غریب اور بے سہارا لوگوں کو دیکھ کر اکثر دل افسردہ ہو جاتا تھا اس لئے میں نے اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ ان ضرورت مند اور بے سہارا لوگوں کے لئے وقف کر رکھا تھا، مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ خود کے رشتوں سے لے کر انسانیت کے رشتے تک ان لوگوں کے لئے جو کچھ بھی کرتی ہوں میری ہر کوشش، ہر ایفرٹ بہت تھوڑی ہے۔
میں نے خود کو ہمیشہ خالی خالی محسوس کیا اور دعا کی کہ کاش ایک دن ایسا آئے کہ اپنی ایفرٹ کو مکمل محسوس کر سکوں۔ میں صرف ایک گلوگارہ ہی نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے مجھے بے پناہ اور بھی صلاحیتوں سے نوازہ تھا، میں نے آٹھ سال کی عمر میں اپنی پہلی پینٹنگ بنائی جس کے بعد مجھے پینٹنگ اور آرٹ کے شعبے سے لگاؤ ہو گیا اور میں نے اس میں بہترین مہارت حاصل کی اور بہت سی پینٹنگز ڈیزائن کیں۔ مارشل آرٹ کا شوق ہوا تو بلیک بیلٹ میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور پورے پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ جانوروں سے لگاؤ ہوا تو سانپوں اور مگرمچھوں سے دوستی کر لی۔ جہاز اڑانے کا شوق ہو یا شکار کھیلنے کا تمنا، اللہ تعالیٰ نے میری ہر آرزو پوری کی۔
میں نے اپنے کیرئیر کا عروج دیکھا، بلندیوں کو چُھوا، بہت اونچی اڑان اڑی، اپنا ہر شوق پورا کیا لیکن میرے اندر ہمیشہ کسی چیز کی کمی رہی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کس چیز کی کمی ہے، کونسی ایسی تمنا ہے جو ابھی ادھوری ہے۔ پھر ایک دن مجھے بانو قدسیہ صاحبہ سے ملنے کا موقع ملا۔ انہوں نے جیسے مجھے پڑھ لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ "تمہارے اندر ایک اور رابی موجود ہے، ایک دن آئے گا تم اس رابی کو پہچان لو گی۔” اس وقت تو ان کی بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن آج میں سوچتی ہوں کہ انہوں نے واقعی اصل رابی کو پہچان لیا تھا۔ ایک دن اللہ تعالیٰ نے مجھ پر دنیا کی حقیقت واضح کر دی، میں نے سوچا کہ میرے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ میں نے دنیا میں وہ سب حاصل کر لیا جس کی مجھے خواہش تھی لیکن میں نے یہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ میرے رب کی کیا خواہش تھی۔ میرا دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا؟ دنیا تو میں نے حاصل کر لی لیکن ابھی تک اپنی زندگی کا مقصد نہیں پا سکی۔ میں نے جانا کہ زندگی تو محدود سی چیز ہے۔ سب نے ایک دن یہ دنیا چھوڑ دینی ہے مگر آخرت ہمیشہ کے لئے ہے۔ میں نے اپنی آخرت کے لئے کچھ بھی نہیں کیا جو کچھ بھی کیا اپنی دنیا کے لئے کیا-
پھر میں نے ارادہ کیا کہ آج کے بعد مجھے اپنی آخرت سنوارنی ہے، وہ آخرت جہاں میں نے ہمیشہ رہنا ہے۔ اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے۔ لہذا میں نے شوبز کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا اور اپنے اللہ کو راضی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سنا تھا کہ اللہ فرماتا ہے کہ "جو میری طرف آتا ہے میں اس کی طرف دس قدم جاتا ہوں۔” اس کا عملی نمونہ میں نے اپنی زندگی میں دیکھ لیا۔ اللہ نے مجھے اپنا کلام لکھنے کا ہنر دے دیا۔ میری اپنی لکھائی اتنی اچھی نہیں تھی لیکن جب میں اللہ کا نام لکھتی ہوں، اس کے خوبصورت کلام کی خطاطی کرتی ہوں تو میں خود حیران رہ جاتی ہوں۔ یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
اللہ نے مجھے ایسا ہنر عطا کر دیا تھا جس کے سامنے سبھی ہنر ہیچ تھے۔ میں جیسے جیسے اللہ کے راستے پر چلتی گئی میرے لئے راستے کھلتے گئے۔ جہاں ڈگمگائی اللہ نے مجھے تھام لیا۔ اس نے مجھے اپنا گھر دیکھنا نصیب فرمایا۔ میں نے کعبہ کو دیکھا، اسے چُھوا، چوما۔۔۔!! یہ میرے لئے ہر احساس سے بڑھ کر تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ دن میری زندگی کا پہلا دن ہے۔ ایسے محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے محو گفتگو ہے، وہ مجھے دیکھ رہا ہے، مجھے سن رہا ہے۔ کچھ کہنے یا مانگنے کی سکت ہی کہاں تھی صرف آنسو تھے جو میرے رب سے ہمکلام تھے۔ میں نے اتنی راحت زندگی میں کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اب میری زندگی کا مقصد صرف اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے۔ اللہ کا پیغام دنیا تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔ اللہ مجھے اس مقصد میں کامیاب کرے۔ رابی پیرزادہ (جولائی 22، 2020)