ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے کمزور ممالک کی شرکت کا مقصد ارادے سےعمل تک راستہ بنانا ہے,شیری رحمان
یوتھ ویژن نیوز : ( علی رضا سے )ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے کمزور ممالک اس امید کے ساتھ کاپ۔27 میں آئے ہیں کہ ارادے سے عمل تک ایک راستہ بنایا جائے گا، وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان آئی پی یو پارلیمانی اجلاس میں ‘وائسز فرام دی فرنٹ لائنز’ کے عنوان سے کلیدی خطاب
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے کمزور ممالک اس امید کے ساتھ کاپ۔27 میں آئے ہیں کہ ارادے سے عمل تک ایک راستہ بنایا جائے گا، خواہش کو حقیقت بنانے کے لئے عملی کام کو تیز کیا جائے گا، اگر آپ موسمیاتی تباہی کے فرنٹ لائنز سے سننا چاہتے ہیں تو یہ "لاسٹ اینڈ ڈیمجڈ” کی آواز ہے” ان خیالات کا اظہار انہوں نے شرم الشیخ میں کاپ۔27 کے دوران آئی پی یو پارلیمانی اجلاس میں ‘وائسز فرام دی فرنٹ لائنز’ کے عنوان سے اپنے کلیدی خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ یو این ایف سی سی کا نظام مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں کے اصول پر بنایا گیا ہے، یہ ہمارے لیے محض الفاظ نہیں ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو 2030 تک موسمیاتی موافقت اور ڈی-کاربنائزیشن شروع کرنے کے لیے کے لیے 348 بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ وفاقی وزیر نے ایک سیشن سے بھی خطاب کیا جس کا عنوان تھا کہ ‘انفراسٹرکچر کے ضیاع اور نقصان کو کیسے روکا جائے’ جہاں انہوں نے ابتدائی وارننگ سسٹم کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح ہیں کہ ہمیں پاکستان میں موافقت کو ترجیح دینی چاہیے، جیسا کہ ہم تخفیف کے لیے فطرت پر مبنی حل پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں ہم بڑا کاربن خارج کرنے والا ملک نہیں ہیں لیکن یہاں تک کہ اگر ہم 100 فیصد قابل تجدید توانائی پر بھی منتقل ہو جاتے ہیں جس کا مقصد ہمارے درآمدی بل کو کم کرنا ہے تو اس سے بھی گلوبل وارمنگ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان تمام کثیرالجہتی فورمز پر مشترکہ بنیاد تلاش کرنے میں مصروف ہے جو بین الاقوامی موسمیاتی نظام کے اندر ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں مدد کرتا ہے۔ وفاقی وزیر نے ‘فرسٹ فارسٹ اینڈ کلائمیٹ لیڈرز پارٹنرشپ منسٹریل ڈائیلاگ’ میں بھی حصہ لیا اور جنگلات کے تحفظ کے بارے میں علم کے تبادلے اور صلاحیت سازی کے ساتھ جنگلات میں آتشزدگی کے حوالے سے ہنگامی پروٹوکول کی سفارش کی۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان 3 بلین درخت لگانے کے ذریعے جنگلات کی بحالی کے لیے بھرپور انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، حالانکہ یہ کوشش جنگلات میں لگنے والی آگ اور سیلاب سے پیش آنے والے خطرات کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر نے سینیٹر بین کارڈن کی قیادت میں امریکی سینیٹرز کے وفد سے بھی پاکستان پویلین میں ملاقات کی۔ سینیٹر مشاہد حسین اور منظور احمد کاکڑ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ملاقات کے دوران سینیٹر کارڈن نے حالیہ تباہ کن سیلاب سے قیمتی جانوں کے ضیاع اور نقصان پر وفاقی وزیر سے تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ آبادی کی بحالی کے لیے ممکنہ مدد کی بھی یقین دہانی کرائی۔ وفاقی وزیر نے سیو دی چلڈرن انٹرنیشنل کی سی ای او انگر ایشنگ سے بھی ملاقات کی اور سیلاب کے بعد بچوں کی حالتِ زار اور صحت کی دیکھ بھال، غذائیت کی کمی اور سکولوں میں نظام متاثر ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ انگر ایشنگ نے کہا کہ سیو دی چلڈرن سیلاب سے متاثرہ بچوں کی بحالی میں مدد فراہم کرے گا اور اسکولنگ کی فراہمی کو بحال کرنے میں مدد کرے گا۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی 17 نومبر تک شرم الشیخ میں رہیں گے اور وہ یو این ایف سی سی سی کے دیگر رکن ممالک، کثیر جہتی اداروں اور ماحولیات کے شعبے بین الاقوامی تعاون کرنے والے وفود سے ملاقات کریں گی۔