ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ صوبے بھر کے سرکاری سکولوں کے لاکھوں بچوں نے اپنے 60,000 نمائندے منتخب کر لیے

سرکاری سکولوں کے بچوں نے اپنے نمائندے منتخب کر لیے
تحریر:

سرکاری سکولوں کے لاکھوں بچوں نے اپنے ساٹھ ہزار سے زائد نمائندے منتخب کر لیے
پنجاب نے کل اک عجب نظارہ دیکھا۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ صوبے بھر کے سرکاری سکولوں کے لاکھوں بچوں نے طویل قطاروں میں لگ کر اپنے ساٹھ ہزار سے زائد نمائندے منتخب کیے!
سٹوڈنٹ کونسلوں کے انسرکاری سکولوں کے لاکھوں بچوں نے طویل قطاروں میں لگ کر اپنے ساٹھ ہزار سے زائد نمائندے منتخب الیکشنوں کا انعقاد ملکی سطح پر ہونے والے عام الیکشنوں کے طرز پر کیا گیا۔ الیکشن منعقد کرنے کے لیے ہر سکول میں الیکشن کمیشن اور شکایات کی شنوائی کے لیے الیکشن ٹرائیبونل قائم کیے گئے۔ امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کیے گئے، باقاعدہ الیکشن مہم چلائی گئی، جلسوں کا انعقاد ہوا، اپنے منشور بتائے گئے۔



اور پھر پولنگ کے روز، ووٹر لسٹیں، انمٹ سیاہی، بیلٹ پیپر، پولنگ بوتھ، مہریں، کوئی ایسا پہلو نہ تھا جو ہم بھول گئے ہوں۔ ہم نے تو اسی عمر میں بچوں کو اس معاملے کا عملی تجربہ کروا دیا جس سے شاید ان کے بہت سے بڑے بھی صحیح طور واقف نہیں!

پولنگ تمام ہوئی تو الیکشن ایجنٹوں کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی کی گئی، کھلے عام نتائج کا اعلان کیا گیا۔ کچھ چہرے مسکرا اٹھے، کچھ مرجھا گئے!
اب حلف اٹھانے کے بعد یہ منتخب نمائندے اپنے معاملات خود سنبھالیں گے، ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد کریں گے، طلبا کے مسائل حل کریں گے، سکول انتظامیہ کی معاونت کریں گے، اور سکول کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
صدور، نائب صدور، جنرل اور فنانس سیکٹریوں پر مشتمل سٹوڈنٹ کونسلوں کے اس نظام کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو عملی زندگی کے لیے بھی تیار کر رہے ہیں، کردار سازی کر رہے ہیں، ان میں قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دے رہے ہیں، اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، سب کو ساتھ لے کر چلنا بتا رہے ہیں، پر وقار انداز میں جیت منانا اور شکست کو تسلیم کرنا سکھلا رہے ہیں۔
جیتنے والے بچوں کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ ہارنے والوں کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں، اور ساتھ لے کر چلنے کا عزم کریں۔ ہارنے والوں پر شرط تھی کہ شکست کو باوقار انداز میں قبول کریں اور فتحیاب ہونے والوں کو از خود مبارک دیں۔ یہ سب کچھ اس معاشرے میں کیا جا رہا تھا جو عدم برداشت سے عبارت ہے!
الیکشن تمام ہونے پر ہارنے، جیتنے والوں سب پر لازم تھا کہ مل کر سکول صاف کریں، اور سکول سے پوسٹر اور دیگر تشہیری مواد ہٹائیں۔
اس سے قبل، الیکشن مہم کے دوران وہ الزام تراشی یا اپنے مخالف کی بابت غیر مہذب زبان استعمال نہیں کر سکتے تھے؛ زیادہ سے زیادہ یہ اجازت تھی کہ اپنے محاسن بیان کرتے یا اپنے منشور کی بابت بتلاتے۔ کوئی دھمکی، کوئی لالچ، کوئی تحفہ، کوئی تحریص نہ دی جاسکتی تھی۔ اوراس طرح کی اور بہت سی شرائط اور ضوابط۔
آپ ایسا ہی پاکستان، ایسی ہی جمہوریت چاہتے ہیں ناں؟!؟
اور وہ جو یار لوگ کہتے ہیں ناں ملک میں جمہوریت مستحکم ہے نہ ثمر دیتی ہے تو انہیں خبر دیں ہم نے تو بچپن ہی سے اپنے بچوں میں جمہوری رویوں اور اقدار کو فروغ دینے کے لیے جمہوریت کو صحیح معنوں میں "گراس روٹ” کی سطح پر متعارف کروا دیا ہے۔
بچے آج ووٹ کی قدر و قیمت اور اس کے صحیح استعمال کو سیکھیں گے تو بڑے ہو کر کل اس کا صحیح استعمال کر پائیں گے۔ جو آج ہم بوئیں گے، کل کاٹیں گے۔
بعض دوست یہاں سوال اٹھائیں گے کہ اس طرح تو ہم بچوں میں یونین سازی کے رجحان کے فروغ کا سبب بنیں گے۔ اس حوالہ سے گزارش ہے کہ ہم نے سٹوڈنٹ کونسلوں کے نظام کو وضع کرتے ہوئے اس امر کا خاص اہتمام کیا ہے کہ طلبا یونینوں کے حوالہ سے ماضی میں ہونے والے بعض ناخوشگوار تجربوں سے سیکھتے ہوئے ایک بہتر نظام وضع کر سکیں۔ بطور مثال عرض ہے، الیکشن کے لیے محض وہ بچے اہل تھے جو آخری سالانہ امتحانات میں پہلی پانچ پوزیشنوں پر فائز ہو چکے ہوں، اسّی فیصد حاضری اور بہترین نظم و ضبط کے حامل ہوں۔ گویا ہم نے اپنے اس نظام کے ذریعے بہتر سے بہتر بچہ سامنے لانے کی سعی کی ہے تاکہ اس طرح کے طلبا دوسرے بچوں کے لیے رول ماڈل بن سکیں۔
ویسے بھی ہمارے بچوں کو تمام وہ حقوق حاصل ہونے چاہیے جو مہذب دنیا میں بچوں کو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ زندگی میں آگے چل کر ایک بہتر اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔
اور تو اور پاکستان کے بہت سے نجی سکولوں میں بھی اس طرح کے الیکشن منعقد کروائے جاتے ہیں تو پھر سرکاری سکولوں کے بچے اس سہولت سے کیوں محروم رکھے جائیں؟
الیکشن کے کامیاب انعقاد کے پیچھے ہمارے DPIs اور CEOs اور ان کے ذیلی افسران، سکولوں کے سربراہان، اساتذہ کرام اور دیگر عملہ کی کئی روز کی محنت شامل تھی۔ ہم ان کے بہت بہت شکر گزار ہیں۔
لیکن سفر ابھی تمام نہیں بلکہ شروع ہوا ہے۔ ہم نے اب اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ اس نظام کو متعارف کروانے کے تمام مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں تاکہ نہ صرف پنجاب کے بچے اس سے بھرپور مستفید ہو سکیں بلکہ اس کی افادیت دیکھتے ہوئے، دیگر صوبے اور وفاق میں بھی ایسا یا اس سے ملتا جلتا نظام وضع ہو سکے۔