جوڈیشل کمیشن ارکان پر حملہ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا، جسٹس فائز، جسٹس طارق کا خط
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر کو خط لکھا ہے۔ خط کے متن میں لکھا ہے کہ نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس کے خطاب نے مایوس کر دیا۔ سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس نہیں بلکہ تمام ججوں پر مشتمل ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ان پر تنقیدکاجواب دیا اور یکطرفہ بات کی۔
خط کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ کیا جو پریشان کن تھا۔ چیف جسٹس نے بار عہدیداروں کے متعلق اہانت آمیز باتیں کیں اور سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایا۔ بار عہدیداروں نے فل کورٹ کی درخواست کی تھی، آئین سپریم کورٹ سے فیصلہ دینے کا تقاضا کرتا ہے۔
خط میں مزید لکھا ہے کہ چیف جسٹس نے کہا جوڈیشل کمیشن نے چیئرمین کے امیدواروں کی منظوری نہیں دی اور الزام وفاقی حکومت کے نمائندوں پر لگا دیا۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کی تعمیل کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ چیف جسٹس پر ہے۔ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے ارکان پر حملہ کریں۔
خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کے چار ارکان نے چیف جسٹس کے امیدواروں کی حمایت نہیں کی۔ اجلاس کو پہلے سے طے شدہ کہنا اور ملتوی کئے جانے کا تاثر دینا بھی غلط ہے۔ چیئرمین ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔
خط کے مطابق آئین لازم کرتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کل ارکان کی اکثریت سے ججز تعینات کرے۔ ایک تہائی سے زیادہ سپریم کورٹ خالی پڑے ہیں، اسے معذور نہیں چھوڑا جا سکتا۔
خط میں واضح کیا گیا کہ تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے۔ ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے رضامندی سے تعبیر نہ کیاجائے