کسی کی چنری میں دھوپ باندھی کسی کو وجہِ جمال رکھا
کسی کی چنری میں دھوپ باندھی کسی کو وجہِ جمال رکھا
کسی کے دامن میں صبح ٹانکی کسی کو شب کی مثال رکھا
رضا پہ تیری ہوئی میں راضی مگر مجھے آ ج یہ بتادے
جواب سارے دئے کسی کو مرے لئے کیوں سوال رکھا
تمنا دیدار کی مجھے تھی میں قریہ قریہ بھٹک رہی ہوں
عیاں ہوا تو سبھی پہ لیکن چھپا کے مجھ سے جمال رکھا
جہاں کے تخلیق کار تو نے یہ کیا کیا ہے یہ کیوں کیا ہے
بنا کے انساں کو سب سے افضل اسی کو رو بہ زوال رکھا
وہ تیرا اپنا تھا میں نے مانا میں تیری کچھ بھی نہیں تھی جاناں
بچھڑنا تقدیر میں مری تھا نصیب اسکا وصال رکھا
یہ فیصلہ تیرا فیصلہ ہے مجال کس کی کہ اس کو بدلے
کسی کے دل میں ہوا چراغاں کسی کے رخ پہ ملال رکھا
فراق کی شب چمکتی یادوں کے جگنوؤں سے میں پوچھتی ہوں
مرے لئے کیوں نہ چاہتوں کا چراغ کوئی سنبھال رکھا
ڈاکٹر شہنازمزمل
Load/Hide Comments