اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق ڈگری کیس میں ایچ ای سی سے جواب طلب کر لیا
یوتھ ویژن نیوز : (ایڈوکیٹ واصب ابراہیم سے) اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق مبینہ تنازعے پر بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، کراچی یونیورسٹی، وفاقی حکومت، صدرِ مملکت، جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو نوٹس جاری کر دیے۔ عدالت نے تمام فریقین کو واضح طور پر ہدایت کی ہے کہ وہ تین روز کے اندر اپنے تحریری جوابات جمع کروائیں، جبکہ رٹ پٹیشن کو قابلِ سماعت قرار دے دیا گیا ہے۔
ایچ ای سی کا مؤقف: ڈگری جاری کرنا ہمارا کام نہیں
ایچ ای سی نے عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ یونیورسٹیوں کے انتظامی معاملات میں کمیشن کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور ڈگری جاری کرنا متعلقہ جامعات کی مکمل ذمہ داری ہے۔ رپورٹ کے مطابق جسٹس طارق کی ڈگری کبھی ایچ ای سی کو تصدیق کے لیے موصول ہی نہیں ہوئی۔
کراچی یونیورسٹی کی سنگین الزامات پر مبنی رپورٹ
کراچی یونیورسٹی نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کا ڈگری ریکارڈ متعدد تضادات رکھتا ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق:
1989 میں مبینہ طور پر ایک امتحانی امیدوار کو دھوکہ دہی اور دھمکی کے الزام میں تین سال کے لیے بین کیا گیا تھا۔
پابندی کے باوجود 1990 میں داخلے کا جعلی فارم استعمال کر کے ڈگری حاصل کی گئی۔
ڈگری پر موجود انرولمنٹ نمبر ایک اور طالب علم کا تھا جبکہ 1990 میں جمع کرایا گیا دوسرا انرولمنٹ نمبر بھی جعلسازی سے لیا گیا۔
مارک شیٹس اور ڈگری میں نام اور اندراج نمبروں میں رد و بدل کی نشاندہی ہوئی۔
یہ پورا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب عرفان مظہر نامی شہری نے 23 مئی 2024 کو ڈگری کی تصدیق کی درخواست دی، جس پر کنٹرولر امتحانات نے دونوں اندراج نمبروں کو جعلی اور متضاد قرار دے دیا۔ اسلامیہ کالج کے پرنسپل نے بھی عدالت کو بتایا کہ طارق محمود 1984 سے 1991 کے دوران کالج میں کبھی داخل نہیں ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو کراچی یونیورسٹی کی رپورٹ کھلے عدالتی فورم پر پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے ایچ ای سی اور جامعہ کراچی کے تحریری جوابات بھی پیش کیے۔
جوڈیشل اسسٹنٹ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے درخواست کی قابلِ سماعت ہونے کی حمایت کرتے ہوئے قانونی نکات بیان کیے، جبکہ درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کراچی یونیورسٹی کے خط کو جعلی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل بینچ کر رہا ہے۔