تھے عجیب میرے بھی فیصلے میں کڑی کماں سے گذر گئی
تھے عجیب میرے بھی فیصلے میں کڑی کماں سے گذر گئی
رہے فاصلے مرے منتظر میں تو جسم و جاں سے گذر گئی
تھیں طویل اتنی مسافتیں کوئی ساتھ میرا نہ دے سکا
وہ یقیں کی حد پہ ٹھہر گیامیں ہر اک گماں سے گذر گئی
مجھے راستوں کی خبر نہ تھی اُڑی خاک میرے وجود کی
میں تلاش کرتی ہوئی تجھے ترے لا مکاں سے گذر گئی
وہ سیاہ شب تھی فراق کی کئی دیپ پلکوں پہ جل بجھے
مجھے جگنوؤں نے نوید دی کہ تو امتحاں سے گذر گئی
کہیں پھول تھے کہیں تتلیاں کہیں زخم تھے کہیں بجلیاں
میں خمار میں تھی بہار کے میں ہر اک خزاں سے گذر گئی
مرا شوق تھا مرا ہمسفر تھی بلندیوں پہ مری نظر
نہ زمیں کی قید میں رہ سکی ہر اک آ سماں سے گذر گئی
مری ہر صدا ہوئی نا رسا تو قصور کس کا ہے تو بتا
مری آرزو مری ہر دعا تو لبِ فغاں سے گذر گئی
جو خلش ملی وہ عزیز تھی مجھے چارہ گر نہ ملا تو کیا
میں بھی دشمنوں کی پناہ میں کوئے دوستاں سے گذر گئی
شہنازمزمل