ملتان و اوچ کی 3000 سالہ تاریخ نے لاہور کی پیدائش کا دعویٰ غلط ثابت کر دیا!

“قدیم ملتان، اوچ اور لاہور کی تاریخی اہمیت پر مبنی اخباری کالم، برصغیر کے قدیم شہروں کی تحقیق۔”

تحریر و تحقیق: ڈاکٹر ذوالفقار علی رحمانی، صحرائے بہاولپور (روہی چولستان) — حال مقیم لندن

پاکستان کی تاریخ کا ایک ورق — جب ملتان و اوچ تھے، لاہور ابھی وجود میں بھی نہ آیا تھا

تاریخ کے اوراق کبھی کبھار ہمیں ایسی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہیں جو ہمارے بنائے گئے تصورات سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ برصغیر کے قدیم شہروں کی تاریخ بھی اسی نوعیت کا ایک دلچسپ باب ہے۔ آج ہم محاورے کی صورت میں سنتے ہیں کہ "جس نے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا نہیں” مگر تاریخ اس کے برعکس حیرت انگیز کہانی سناتی ہے—وہ یہ کہ جب ملتان اور اوچ قائم و آباد تھے، اس وقت لاہور ابھی “جمیا” بھی نہ تھا۔

تحقیقات کے مطابق لاہور کی ابتدائی تشکیل تقریباً 300 قبل مسیح کے قریب ہوئی، جبکہ ملتان اور اوچ کی تہذیبی بنیادیں تین ہزار سال قبل مسیح تک جاتی ہیں۔ یہ دو شہر اُس دور میں بھی علم، تجارت، روحانیت اور طاقت کے مراکز تھے جب لاہور کا نام تاریخ کے صفحات پر موجود نہیں تھا۔

326 قبل مسیح میں اسکندر اعظم کی مہمِ ہند کے دوران اس کے مؤرخین نے موجودہ لاہور کے مقام کے قریب کسی شہر یا بستی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ بطلیموس نے البتہ اپنی کتاب جغرافیہ میں دریائے چناب اور راوی کے سنگم کے قریب "لابوکلا” نامی ایک بستی کا حوالہ دیا ہے، جو ممکنہ طور پر لاہور کی قبل از تاریخ شکل یا کسی ترک شدہ بستی کا ذکر ہو سکتا ہے۔

لاہور کا پہلا معتبر تحریری حوالہ 982 عیسوی کی کتاب حدودالعالم میں ملتا ہے۔ چینی زائر ہیوان سانگ نے 630 عیسوی کے سفر میں ایک شہر کا ذکر تو کیا ہے، مگر یہ حوالہ بھی لاہور کی طرف براہِ راست اشارہ نہیں کرتا۔ گویا لاہور کی شناخت مکمل طور پر بعد از مسیح عہد میں ابھری۔

اس کے برعکس ملتان اور اوچ کا شمار خطے کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ ہندو روایات انہیں رِشی کشیپ کی بستی سے جوڑتی ہیں اور مہابھارت کے میدانِ کارزار میں بھی ان علاقوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اُس وقت لاہور کا وجود تک نہیں تھا۔

غوری سلطنت کے دور میں ملتان ایک باقاعدہ صوبہ تھا، جس کا گورنر ناصرالدین قباچہ تھا۔ اُس زمانے میں لاہور اسی ملتان صوبے کے زیرِ انتظام تھا۔ تاریخ کے اس موڑ پر لاہور ملتان کے ماتحت شہر کے طور پر چلتا تھا، مگر آج صورت حال یکسر بدل چکی ہے—اور یہ نوزائیدہ شہر اب انہی قدیم مراکز کی تقدیر کا فیصلہ کرنے لگ گیا ہے۔

تاریخ کا یہ تضاد محض اتفاق نہیں بلکہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جغرافیہ کی طاقت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ آج ملتان و اوچ لاہور کے زیرِ انتظام ہیں، مگر زمانہ گواہ ہے کہ تہذیبوں کی بنیادیں طاقت سے نہیں بلکہ صدیوں پر مشتمل میراث سے بنتی ہیں۔

تمام تاریخی حوالہ جات معتبر ماخذ سے لئے گئے ہیں اور تحقیق کے خواہشمند افراد انہیں مزید جانچ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں