گندم میں زنک و آئرن کی کمی: قومی صحت کا سوال
یوتھ ویژن نیوز : پاکستان میں گندم میں آئرن اور زنک کی کمی بڑھتی جا رہی ہے، ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ قومی صحت، خوراک اور پیداوار کے لیے بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے جس کے حل کے لیے جامع حکمت عملی درکار ہے۔
اریشہ، جو دی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے انسٹیٹیوٹ آف سوئل اینڈ واٹر ریسورسز میں سوئل سائنس کی طالبہ ہیں، نے اپنی تحقیقی تحریر میں واضح کیا ہے کہ پاکستان میں گندم کے دانے میں آئرن اور زنک کی کمی صرف زرعی مسئلہ نہیں بلکہ قومی صحت، غذائی تحفظ اور انسانی ترقی کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق گندم پاکستانی عوام کی بنیادی خوراک ہے، اس لیے اس کے غذائی معیار میں کمی کھیت سے لے کر گھریلو سطح تک سنگین اثرات پیدا کرتی ہے۔
تحریر کے مطابق پاکستان کی وسیع زرعی زمینیں بالخصوص چونے دار اور الکلائن مٹی مائیکرو نیوٹرینٹس کے لیے غیر موافق کیمیائی ماحول رکھتی ہیں۔ ان مٹیوں میں آئرن اور زنک غیر محلول صورت میں بند رہتے ہیں جس کے باعث یہ عناصر پودے کی جڑوں کے لیے دستیاب نہیں رہتے۔ اسی طرح فاسفورس سے بھرپور ڈی اے پی کھاد کے زیادہ استعمال سے زنک کی دستیابی مزید کم ہو جاتی ہے، جبکہ مٹی میں نامیاتی مادے کی کمی بائیولوجیکل سرگرمی کو متاثر کرتی ہے، جو مائیکرو نیوٹرینٹس کو قابلِ جذب حالت میں برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
ان کمیوں کا سب سے زیادہ اثر گندم کے حساس مراحل—جیسے شگوفہ بندی، ٹِلرنگ اور دانہ بھرنے—پر پڑتا ہے۔ آئرن کی کمی پودوں میں کلوروفل پیدا کرنے کی صلاحیت کم کر دیتی ہے جس سے پتّوں کا پیلاہٹ، کمزور بڑھوتری اور مجموعی نشوونما میں کمی ظاہر ہوتی ہے۔ زنک کی کمی شاخوں کی تعداد میں کمی، چھوٹے دانے اور پیداوار میں نمایاں کمی کا سبب بنتی ہے۔ ایسے پودے موسمی دباؤ، پانی کی کمی اور گرمی کے تناؤ کے خلاف کم مزاحمت رکھتے ہیں جس سے فصل ہر سال غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتی ہے۔
تحریر میں یہ بھی بتایا گیا کہ آٹے میں آئرن اور زنک کی کمی براہِ راست انسانوں کی صحت پر اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں خاندان اپنی روزمرہ غذائی ضرورت کا بڑا حصہ گندم کے آٹے سے پوری کرتے ہیں، اس لیے ان غذائی عناصر کی کمی سے anemia، کمزور قوتِ مدافعت، بچوں میں stunting، اور حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دانے میں موجود فائٹیٹس معدنیات کے جذب کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں، جس سے غذائی قلت بڑھ جاتی ہے۔ کم آمدنی والے گھرانے، جو محدود غذائی انتخاب رکھتے ہیں، اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اریشہ نے حل کے لیے چار سطحوں پر ایک جامع حکمتِ عملی تجویز کی ہے: کھیت، بیج، ملنگ اور گھریلو سطح۔
کھیت کی سطح پر اقدامات
انہوں نے لکھا کہ زنک سلفیٹ کی بنیاد پر کھاد کا استعمال، حساس مراحل پر زنک کے فولیئر اسپرے، اور NPK کے ساتھ متوازن مائیکرو نیوٹرینٹ کھادیں فصل کی غذائی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ نامیاتی مادہ بڑھانے سے مٹی کی بائیولوجیکل سرگرمی بہتر ہوتی ہے، جبکہ بہتر آبپاشی انتظام سے دانہ بھرنے کے دوران غذائی اجزاء کی ترسیل متاثر نہیں ہوتی۔
بیج اور ورائٹی کی سطح
بایوفورٹیفائیڈ گندم کی اقسام کا فروغ ایک پائیدار حل قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقسام آئرن اور زنک کو دانے کے اندرونی حصے—اندوسپرم—تک بہتر منتقل کرتی ہیں، جو براہِ راست آٹے میں شامل ہوتا ہے۔ بیج کے نظام کو مضبوط بنانا اور معیاری بیج تک بروقت رسائی اس تبدیلی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
ملنگ سیکٹر میں اقدامات
آٹے کی لازمی فورٹیفیکیشن (آٹے میں تیار شدہ آئرن اور زنک مرکب شامل کرنا) شہری و دیہی دونوں آبادیوں کے لیے مؤثر حل ہے۔ چھوٹی فلور ملوں تک فورٹیفیکیشن مرکب کی آسان دستیابی فیلڈ سے صارفین تک غذائیت کی منتقلی کو یقینی بناتی ہے۔
تحریر کے مطابق extraction rate میں معمولی تبدیلیاں اور bran کے بعض حصے کو برقرار رکھنا آٹے کی غذائی قدر میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔گھریلو سطح پر تبدیلیاں
اریشہ نے بتایا کہ خمیر دار یا طویل خمیر والی روٹی آئرن کے جذب کو بڑھاتی ہے، جبکہ وٹامن C والی غذائیں—جیسے لیموں یا ٹماٹر—کھانے کے ساتھ شامل کرنے سے آئرن کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
پالیسی سطح پر انہوں نے سفارش کی کہ حکومت زرعی سفارشات میں زنک کھاد کو باضابطہ شامل کرے، بایوفورٹیفائیڈ بیج کی توسیع کے لیے نجی و سرکاری شراکت داریوں کو فروغ دے، اور آٹے کی فورٹیفیکیشن کے نفاذ کے لیے مضبوط مانیٹرنگ نظام قائم کیا جائے۔ کسانوں کے لیے ہدفی سبسڈی اور آسان قرضے اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تحریر کے اختتام میں اریشہ واضح کرتی ہیں کہ آئرن اور زنک کی کمی کو دور کرنا صرف زرعی اصلاح نہیں بلکہ قومی ترقی، انسانی سرمائے اور معاشی استحکام کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس کے لیے مربوط اقدامات اپنائے جائیں تو پیداوار، بچوں کی صحت، تعلیمی کارکردگی اور بالغ افراد کی productivity میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے—جو پاکستان کو صرف کیلوریز نہیں بلکہ حقیقی غذائی تحفظ کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔