کل آ ج اور کل
خواتین کے عالمی دن پر لکھی گئی ایک نظم
کل آ ج اور کل
تحریر۔۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر شہناز مزمل
بہت مدت ہوئی تم نے کہا تھا چھوڑ دو لکھنا
تم عورت ہو غزل ہو روپ ہو اتنا ہی کافی ہے
اگر تم شعر لکھوگی تو گم ہو جائے گی عورت
غلط سمجھا تھا میری سوچ پر پہرے بٹھا دو گے
غلط سمجھا تھا میری فکر کو بنجر بنا دو گے
غلط سمجھا تھا کٹھ پتلی بنا کر تم نچا دوگے
غلط سمجھا تھا مجھ کو میرے ہونے کی سزا دوگے
مرا ناتہ قلم کاغذ سے انمٹ ہے پرانا ہے
اسی کاغذ کی ناؤ پر تو دریا پار جانا ہے
مجھے جرات حرارت زندگی لفظوں سے ملتی ہے
میں چنری اوڑھ کر الفاظ کی دھوپوں میں چلتی ہوں
میں سورج ہوں مگر جذبوں کی حدت سے پگھلتی ہوں
مجھے الفاظ ماں کی گود کی مانند لگتے ہیں
میں اکثر نظم کے کنجِ اماں میں بیٹھ جاتی ہوں
میں عورت ہوں غزل ہوں روپ ہوں یہ ٹھیک ہے لیکن
شرافت ہوں وجاہت ہوں دیانت ہوں ریاضت ہوں
اگر سر ہے تمہارے پاس تو دستار بھی ہوں میں
کبھی بیوی کبھی بیٹی کبھی سردار بھی ہوں میں
بہن مانو تو عزت ہوں تمہاری پیار بھی ہوں میں
مری غیرت کو للکارو گے تو تلوار بھی ہوں میں
نہیں ممکن مرے شفاف آ نچل کو ہوا دینا
نہیں ممکن مری توقیر داؤ پر لگا دینا
نہیں ممکن مجھے زنجیر پہنا کر بٹھا دینا
نہیں ممکن ہے ناممکن کو ممکن سے ملا دینا
مرے معصوم بچے میرے بھائی آ ج یہ سن لیں
میں پابندِ سلاسل ہو کے بھی نگران ہوں سب کی
میں عورت کل بھی تھی میں آ ج بھی عورت ہوں ممتا ہوں
گواہی دے گا میرا کل مرے ہونے کی تم سب کو