روزنامہ یوتھ ویژن کی جانب سے تمام اہل اسلام کو دل کی اتہا گہرائیوں سے عیدالفطر 2024 مبارک ہو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام دسویں بین الاقوامی سیرت النبی ﷺکانفرنس کا انِقعاد وہیل چیئر ایشیا کپ: سری لنکن ٹیم کی فتح حکومت کا نیب ترمیمی بل کیس کے فیصلے پر نظرثانی اور اپیل کرنے کا فیصلہ واٹس ایپ کا ایک نیا AI پر مبنی فیچر سامنے آگیا ۔ جناح اسپتال میں 34 سالہ شخص کی پہلی کامیاب روبوٹک سرجری پی ایس او اور پی آئی اے کے درمیان اہم مذاکراتی پیش رفت۔ تحریِک انصاف کی اہم شخصیات سیاست چھوڑ گئ- قومی بچت کا سرٹیفکیٹ CDNS کا ٹاسک مکمل ۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر آج سماعت ہو گی ۔ نائیجیریا ایک بے قابو خناق کی وبا کا سامنا کر رہا ہے۔ انڈونیشیا میں پہلی ’بلٹ ٹرین‘ نے سروس شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل منیرافسر کوبطورچیئرمین نادرا تقرر کرنے منظوری دے دی  ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں وزارت داخلہ کے قریب خودکش حملہ- سونے کی قیمت میں 36 ہزار روپے تک گر گئی۔ آئی ایس پی آر نے10 اپریل کوبہاولنگر میں پیش آنے والے واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کر دیا وفاقی حکومت نے ترقی کو تیز کرنے کے لیے بینک فنانسنگ کے لیے زراعت، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) جیسے شعبوں کو ترجیح دی ہے2024 ایشیائی ترقیاتی بینک نے رواں مالی سال 2024 کی رپورٹ شائع کردی بھارتی عدالت نے کرپشن کیس میں دہلی کے 55 سالہ وزیراعلیٰ کیجریوال کی گرفتاری کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کر دی۔ عیدالفطر2024 میں کراچی والوں کو عید کے روز بھی پانی کے بحران سے کوئی چھٹکارا نہ مل سکا سال 2024 میں غیرمتوقع اسٹرابیری کی فصل نے برکینا فاسو کا ‘سرخ سونا’ گھمایا وزیر اعظم شہباز اور ولی عہد سلمان نے پاکستان میں 5 ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ سال 2024 کا وزیراعظم محمد شہباز شریف کا اپنے وفد کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی لاہور ہائیکورٹ کے جج سے بدتمیزی پر وکیل کو 6 ماہ قید کے ساتھ 1،00،000جرمانہ ک سزا کا حکم

مولوی صاحب کے بیٹے اور عطا مانیکا صاحب کا اضطراب

تحریر: مسرور احمد
چند روز قبل میرے آبائی علاقے پاکپتن کے سوشل میڈیا گروپس میں ایک کلپ وائرل ہوا جس میں ایک نجی ٹی وی چینل کی خاتون اینکر کے ساتھ گفتگو میں پاکپتن سے متعدد بار ایم پی اے اور صوبائی وزیر رہنے والے میاں عطا محمد مانیکا اپنے علاقے کے ایک مولوی صاحب اور ان کے بیٹوں کا نامناسب اور قدرے طنزیہ انداز میں تذکرہ کر رہے تھے۔عطا مانیکا ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ایک پڑھے لکھے اور سینئر سیاستدان ہیںلیکن انکی گفتگو سن کر بڑا افسوس ہوا کہ اعلیٰ تعلیم بھی ان کے اندر کے روائیتی جاگیردار کی متعصبانہ سوچ میںکوئی تبدیلی نہیں لا سکی۔ ہمارے ملک کے طبقہ اشرافیہ کا یہی وہ سوچ اور انداز فکر ہے جو اس ملک کو آگے نہیں بڑھنے دے رہا اور جس کے سبب ہم اپنے مشرقی بازو موجودہ بنگلہ دیش سے ہاتھ دھو چکے ہیں لیکن ہمارے حکمران طبقے کی خو نہ بدلی ہے نہ بدلنے کے آثار نظر آتے ہیں۔مانیکا صاحب سے زیادہ حیرت مجھے انٹرویو کرنے والی خاتون اینکر پر ہوئی جو سیاق و سباق جانے بغیر بلا تکان ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس پھوہڑ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی تھی۔ راقم کا تعلق بھی چونکہ فرید کوٹ نام کے اسی گاؤں سے ہے اور قبلہ مرحوم والد صاحب عرصہ دراز تک استاد محترم حافظ محمد نذرصاحب سے قبل کئی سال تک گاؤں کی اسی مسجد کے امام رہے تو مانیکا صاحب کے انٹرویو سے پیدا صورتحال کا سیاق و باق واضح کرنادلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ یہ قارئین کیلئے دلچسپ اور سبق آموز بھی ہے۔حافظ نذر محمد ماشا ءاللہ کثیر الاولاد تھے اور ان کے سب سے بڑے بیٹے نعیم میرے سکول میں ہم جماعت بھی تھے۔ مذہبی خاندانی پس منظر ہونے کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے ہمیں لاہور کے ایک نامور مدرسہ میں بغرض حصول دینی تعلیم داخل کروا دیا جہاں ماہانہ فیس بھی رائج تھی۔ جیسا کہ مانیکا صاحب نے اپنے انٹرویو میں گاو¿ں کے مولوی صاحب کی مالی حالت کا بغیر شرم محسوس کئے ڈھٹائی کے ساتھ ذکر کیا ہے گویا یہ بہت فخر والی بات ہو کہ اپنی دینی خدمت کے عوض گاو¿ں دیہاتوں میں مولوی شام کو لوگوں کے گھروں سے روٹیاں مانگ کے گزر بسر کرتا ہے۔یہ عطا مانیکا اور انگریزوں کے پروردہ ہمارے معاشرے پر مسلط کئے گئے اسی ذہنیت کے دیگر لوگوں کے طفیل ہی ہے کہ آج بھی ہمارے دیہاتوں میں مولوی یا دینی خدمت دینے والے کا سماجی رتبہ کمی کمین سے ذیادہ کا نہیں ہے ۔ یوں معاشرے کے ساتھ ساتھ دین کی حقیقی تعلیمات بھی مسخ ہو کر رہ گئی ہیں کیونکہ دین اس فرسودہ نظام میں حاکم طبقات کی خواہشات کے تابع ہے ۔ ہمارے معاشرے میں نسلی امتیاز نے پوری سوسائٹی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے جبکہ ایک حدیث نبوی کے مطابق دین کہتا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے ساتھ۔ یہاں تقویٰ کا لفظ صرف عبادت نہیں بلکہ میرٹ ، قابلیت اور محنت کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔ہمارے ہاں یوں ہوا کہ انگریز کی طرف سے وفاداریوں کے عوض نوازے گئے وڈیرے ،گدی نشین ، جاگیر دار اور ان کے تربیتی نظام سے فیض یافتہ سول اور فوجی افسران پر مشتمل جعلی اشرافیہ پاکستان بننے کے بعد مزید مضبوط ہو گئی جبکہ ہنر مند اور ورکنگ کلاس کمی کمین ٹھہری۔ہم مانیں یا نہ مانیں جیسے ہندوؤں کے ہاں چھوت چھات کانظام ہے وہ ہمارے ہاں بھی جوں کا توں رائج ہے۔اسلام کے نام پر بننے والے ہمارے نئے ملک میں پرانے نظام اور جبر پر مبنی ظالمانہ نظام نے پورے معاشرے کی چولیں ہلا کے رکھ دی ہیں جبکہ عملی طور پر اب صرف کاسمیٹک اسلام ہی رہ گیا ہے اور مدینہ کی ریاست ابوجہلوں کے ہاتھ میں ہے۔ تعلیمی نظام اتنا فرسودہ ہے کہ بظاہر انتہائی تعلیم یافتہ افراد بھی عملی طور پر جہالت میں غرق نظر آئیں گے۔لوگ اب بھی ذہنی طور پر کسی مثبت تبدیلی کو یا تو قبول نہیں کرتے یا مشکل سے قبول کرتے ہیں اور طنز کے نشتر تو ضرور برساتے ہیںجیسے مانیکا صاحب اپنے انٹرویو میں برسا تے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ جاگیردار ،وڈیرے اور دیگر حاکم طبقات تو ایک طرف رہے عام عوام بھی ابھی تک غلامانہ ذہنیت رکھتے ہیں اور تبدیلی لانے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ ویسا ہی ہے جیسا تبدیلی اور انقلاب کے سمبل چی گویرا کے ساتھ ہوا جسے ایک چرواہے کی مخبری پر دشمنوں نے گرفتار کر لیا۔ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ چرواہا جن کے حقوق کی حفاظت کیلئے چی گویرا عالمی سطح پر آواز بلند کر رہا تھا ۔ اب کوئی ورکنگ کلاس سے اوپر اٹھتا ہے تو عام طور پر معاشرہ اور خاص طور پر حاکم طبقات اس کی ترقی اور اس کے حالات میں تبدیلی کوکھلے دل سے برداشت نہیں کر پاتے کیونکہ ہمارا معاشرہ صدیوں سے جاگیردارانہ اثرات کے تابع ہے جو اسٹیٹس کو میں تبدیلی کے سخت خلاف ہے اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا صرف اس وقت تک ساتھ دیتا ہے جب تک اس سے مفادات کے تصادم کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اسے معاشرے میں رول ماڈل کے طور پر تسلیم کر کے اس کی محنت اور عظمت سے سبق حاصل کرنے اور سیکھنے کی بجائے لوگ اس کے ماضی کے حالات کے تناظر (frame of reference) میں طنز کرتے اورتمسخراڑاتے نظر آئیں گے۔ مولوی صاحب کے بیٹوں کی ترقی پر عطا مانیکا صاحب کا اضطراب اسی کیفیت کا عکاس ہے جو دراصل اپنے حلقے اور اپنی موروثی سیاست کے اسٹیٹس کو میں کسی ممکنہ تبدیلی پرپریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ہم اس وقت سیکنڈ ایئر کے طالبعلم تھے جب نعیم بھائی کو والدہ کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کا پتہ چلا۔والد صاحب پہلے ہی جسمانی معذور ی کا شکار تھے اور گھر کے مالی حالات علاج کے بھاری اخراجات اٹھانےسے قاصر تھے ۔ ان حالات میں نعیم بھائی نے حالات کا مقابلہ کرنے اور والدہ کا علاج ممکن بنانے کیلئے بڑے بھائی کا فرض نبھانے کا فیصلہ کیا اور بڑی مشقتوں کے بعد کسی طرح جنوبی افریقہ پہنچ گئے۔وہاں کئی سال تک مزدوری اور محنت کی لیکن ان کی والدہ اس دوران بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان ہار گئیں۔ نعیم بھائی بالآخرچھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار شروع کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ایک ایک کر کے اپنے دیگر بھائیوں کو بھی ساؤتھ افریقہ بلا لیا۔مسلسل اور انتھک محنت، نیک نیتی اور قدرت کی مہربانی سے اب وہ ساؤتھ افریقہ کے نامور بزنس مین بن چکے ہیں اور ہزاروں لوگ ان کے مختلف کاروباری اداروں میں کام کر تے ہیں جن میں ان کے اپنے گاو¿ں کے سینکڑوں لوگ بھی شامل ہیں۔ اب ساو¿تھ افریقہ کے علاوہ ان کے کاروباری ادارے یورپ، مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک تک پھیل چکے ہیں۔ وقت نے ایسی قلابازی کھائی کہ اب وہی گاو¿ں جہاں دو وقت کی عزت کی روٹی کا حصول ایک وقت میںمشکل تھا وہ نہ صرف اس گاو¿ں بلکہ پورے علاقے کے سب سے بڑے زمیندار ہیں۔لیکن مانیکا صاحب کے برعکس وہ اپنی سینکڑوں ایکڑ زمین پر کاشت ہونے والی فصل کو اپنی فیملی کی ضروریات کی حد تک استعمال کرتے ہیں جبکہ باقی تمام فصل اپنے علاقے کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔مولوی صاحب کیلئے مختص گاو¿ں کے جس کچے گھر میں نعیم بھائی کا گھرانہ رہتا تھااسی جگہ انھوں نے امام صاحب کیلئے اب شاندار رہائش تعمیر کر کے ان کے حوالے کر دی ہے اور اب مولوی صاحب کا گھر گاؤں کا سب سے بہترین گھر نظر آتا ہے۔ نعیم بھائی اور سلیم بھائی نے مٹی کا قرض اتارنے اور علاقے کی سماجی فلاح و بہبود کیلئے اپنے والد کے نام سے نذر اینڈ نذر فاوؤنڈیشن کی بنیادرکھی جبکہ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے بیرون ملک قیام پزیر ہیں اور یہاں صرف لاہور والے گھر میں کبھی کبھار آنا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اپنے لوگوں اور اپنے علاقے سے جڑے ہوئے ہیں۔انھوں نے پاکستان میں اپنے تمام کاروبار جن میں زرعی زمینوں، فلور ملز، آئس ملز،پٹرول پمپس، شادی ہالزاور دیگر کاروباری زرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مکمل طور پرفلاحی کاموں کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ مولوی صاحب کے بیٹے این اینڈ این کے پلیٹ فارم سے جدید آلات سے آراستہ ایمبولینسز، میڈیکل کیمپس، سو گھروں کی تعمیر، سو واش رومز کی تعمیر، ہزاروں افراد میں راشن کی تقسیم، پانچ ہزار گرم شالوںاور گرم کپڑوں، ضعیف العمر مرد و خواتین کیلئے ماہانہ وظیفوں،درجنوں لوگوں کو حج و عمرہ کروانے، سو غریب خاندانوں کی بچیوں کی شادی، کڈنی سنٹرکی تعمیر، سٹریٹ لائٹس، کھیلوں کے گراو¿نڈز کی تعمیر اور تزئین و آرائش، ایک ملین پوددوں کی شجر کاری اور ووکیشنل اداروں کے قیام جیسے منصوبوں پر کام چکے ہیں اور علاقے کے غریب عوام کی خدمت کر رہے ہیں ۔ ان سماجی خدمات کی وجہ سے پورے علاقے میں ان کی نیک نامی پھیل چکی ہے جس سے مانیکا صاحب اور علاقے کے دیگر نام نہاد سیاسی لیڈروں اور اجارہ داروں کو تکلیف ہے۔ذاتی لحاظ سے نعیم بھائی اور دیگر نذر برادران انتہائی سادہ اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں کہ وہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والد صاحب نے علاقے کیلئے دینی خدمات انجام دیں اور اللہ نے انھیں علاقے کی سماجی خدمت کا موقع عطا کیا ہے ۔ایک مرتبہ نعیم بھائی نے فون کر کے کہا کہ انھیں بہت اہم مشورہ کرنا ہے اگرچہ وہ اس حوالے سے اپنا ذہن پہلے ہی بنا چکے ہیں۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ اللہ میاں نے انھیں اتنا نواز دیا ہے کہ جو ان کی سات پشتوں کیلئے بھی کافی ہے اور اب وہ تمام کاروبار سے دستبردار ہو کر صرف تبلیغی جماعت اور عبادت کیلئے خود کو وقف کرنا چاہتے ہیں۔جس پر میں نے انھیں کہا کہ ہمارا دین بہت لچک دار ہے اور ایک اچھا اور ایماندار بزنس مین بھی کسی ولی اللہ سے کم نہیں ہوتا جبکہ آپ کی بدولت اللہ کے ہزاروں بندوں کے چولہے جل رہے ہیں اور انھیں روزگار مل رہا ہے ۔ یہ بڑی نعمت اور سعادت ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ کی بدولت ہزاروں نہیں بلکہ اللہ کے لاکھوں بندوں کیلئے آسانیاں پیدا ہوں۔مسلمانوں کو اس وقت عبادت گزاروں سے کہیں ذیادہ اچھے بزنس مین، سائنسدانوں ، سوشل لیڈرزاور دانشوروں کی بھی ضرورت ہے۔ مانیکا صاحب کو ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے منفی اور سطحی تنقید سے اجتناب کرنا چاہئے تھا ۔ وہ ایک معزز اور قد آور شخصیت ، علاقے کے سرکردہ سیاسی راہنما ، صاحب ثروت اور بڑے جاگیردار ہیں ۔پاکستان پر کسی اجارہ داری نہیں ، یہ ہم سب کا ملک ہے۔قانون کے مطابق ہر پاکستانی کو آگے بڑھنے اور سماجی و سیاسی سطح پر خدمت کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی دولت اور وسائل کس طرح خرچ کرتا ہے لیکن بعض اوقات کچھ خرچ کئے بغیر محض آپ اچھے لفظوں کے انتخاب ا ور حوصلہ افزائی سے ہی دوسروںکے دکھوں کا مرہم اور مداوابن سکتے ہیں ، مانیکا صاحب اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کیلئے افسوس ہی کیا جاسکتا ہے جنھیں اس کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ اگر ایسے لوگ بدقسمتی سے لوگوں کے راہنما کا درجہ حاصل کرلیں تو پھر میرے خیال میں قوم کو بھی اپنی اداؤں پہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں

WP Twitter Auto Publish Powered By : XYZScripts.com