مولانا فضل الرحمٰن نے آئینی ترامیم کو ناقابل قبول اور ناقابل عمل قرار دے دیا
یوتھ ویژن : ( واصب ابراہیم غوری سے ) اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کے روز مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں "ناقابل قبول اور ناقابل عمل” قرار دے دیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر کی رہائش گاہ سے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے آئینی ترامیم کا مکمل جائزہ لیا ہے اور انہیں ناقص پایا ہے۔
اسد قیصر نے مولانا فضل الرحمٰن کے اعزاز میں ظہرانہ دیا، جس میں پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔
فضل الرحمٰن نے کہا، "ہم نے حکومت کے مسودے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ان ترامیم کی حمایت کرنا قوم کے اعتماد سے غداری کے مترادف ہوگا۔”
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ مسودہ چند افراد کو دکھایا گیا، اور یہ مسودہ دراصل آئینی ترامیم کا نہیں بلکہ کچھ اور ہی تھا۔
"ہم نے جو مسودہ دیکھا، اسے ناقابل قبول پایا ہے،” انہوں نے مزید کہا۔
جب ان سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فضل الرحمٰن مسکرا دیے اور مزید تبصرے سے گریز کیا۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ان کی ملاقات مثبت رہی اور آئینی ترامیم پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) نے مشترکہ طور پر مجوزہ آئینی ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔
اس سے قبل آج یہ خبر آئی تھی کہ حکومت نے آئینی ترامیم پر بار ایسوسی ایشنز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وکلا کی تنظیمیں ان ترامیم کی مخالفت کر رہی ہیں۔
وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ بار ایسوسی ایشنز کو آئینی ترامیم پر بریفنگ دیں گے تاکہ اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار، حامد خان نے 16 ستمبر کو اعلان کیا تھا کہ وکلا 19 ستمبر سے آئینی ترامیم کے خلاف ‘وکلا تحریک’ شروع کریں گے۔