سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اہم اجلاس نیپرا پر تنقید اور بجلی کی بڑھتی قیمتوں پر گہری تشویش کا اظہار
یوتھ ویژن : ( ثاقب ابراہیم غوری سے ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس آج چیئرمین سینیٹر محسن عزیز کی صدارت میں ہوا، جس میں پاور سیکٹر اور ریگولیٹری عمل کے حوالے سے سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا۔
نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار نے اعتراف کیا کہ بجلی کی طلب میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "ہماری بجلی کی طلب میں مسلسل کمی آ رہی ہے” اور مزید صلاحیت بڑھانے کا ارادہ نہیں ہے۔
سینیٹر شبلی فراز نے نیپرا کی آزادی پر تنقید کرتے ہوئے حالیہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے سوالات اٹھائے۔ انہوں نے پوچھا کہ آیا نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں تین روپے کا اضافہ کیا ہے جب کہ پانچ روپے کا اضافہ متوقع تھا۔ فراز نے پچھلے دو سالوں کے دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی تفصیلات طلب کیں اور ملک بھر میں جاری پاور پراجیکٹس کی مکمل رپورٹس فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں : سینیٹ کمیٹی کا ڈریپ کو ادویات کے معیار کی بہتری اور فارمولا دودھ کی ریگولیشن پر زور
اسی دوران اویس لغاری نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے معاہدوں اور مستقبل کے توانائی منصوبوں پر بات چیت کی، خاص طور پر دیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت زیادہ ہوگی، اور کہا، "دیامر بھاشا ڈیم بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا۔”
مزید برآں، کمیٹی نے آئی پی پیز کی جانچ پڑتال کے لیے قائم ٹاسک فورس پر تبادلہ خیال کیا، جس کی سفارشات محمد علی رپورٹ میں شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں تفصیلی مطالعے کی تجویز دی گئی تھی، تاہم توجہ براہِ راست آڈٹ کے بجائے ثالثی پر مرکوز ہو گئی ہے۔
کمیٹی کے اجلاس میں لوڈ شیڈنگ اور منصوبوں کی لاگت پر بھی بحث ہوئی۔ اویس لغاری نے لوڈ شیڈنگ کے اثرات پر گفتگو کی اور سوال اٹھایا کہ اگر لوڈ شیڈنگ جاری ہے تو 1875 میگاواٹ کی گنجائش کی ضرورت کیوں ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے پاکستان میں ونڈ پاور منصوبوں کی اعلیٰ لاگت پر تشویش کا اظہار کیا اور مقامی منصوبوں کی بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں زیادہ لاگت کی وجوہات پر نظرثانی پر زور دیا۔
مجموعی طور پر، کمیٹی کے اجلاس نے پاکستان کے توانائی کے شعبے کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی، جن میں ریگولیٹری چیلنجز، بڑھتی ہوئی لاگت اور منصوبوں کی جانچ شامل ہیں۔