بینظیر کی حیران کن بینظیر جدوجہد
تحریر ۔۔۔۔۔ نعیم اشرف
ایک ایسے معاشرے میں جہاں اجارہ داری ہو، عورت کی عزت نہ ہو، عورت کو پاؤں کی جوتی کہا جاتا ہو، جاگیردار، آمر چھائے ہوئے ہوں، عدالتیں آمروں کی غلام ہوں، میڈیا بکاؤ مال ہو، قلم سہمے ہوئے ہوں، موت کا وحشیانہ رقص ہر سو ہو۔ وہاں ایک نہتی لڑکی بہادری کے ساتھ سچ کا علم لے کر نکل پڑے۔ مظلوموں، غریبوں، نہتوں، مجبوروں، مزدوروں، محنت کشوں کی آس بن جائے، وہ اسے اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھنے لگیں اور نعرے لگانے لگیں:
"بینظیر آ، زندہ ضمیر آ
توڑنے تو ظلم کی زنجیر آ”
تو کیا یہ کسی معجزہ سے کم ہے؟
وہ ٹوٹے مکانوں والوں کی، ٹپکتی چھتوں والوں کی، پھٹے کپڑوں والوں کی، ننگے پیروں والوں کی لیڈر تھی۔ اسے غریبوں سے عشق تھا۔ وہ علم کی طاقت سے مالامال تھی- اس کے سینے میں حسین دل دھڑکتا تھا، وہ حسن کی ملکہ تھی۔ وہ گرجتی تھی تو سورماؤں کے دل دہل جاتےتھے۔
"ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے. ڈرے ہوئے ہیں، مرے ہوُے ہیں
لرزیدہ لرزیدہ ہیں سارے. کے سارے ایک نہتی لڑکی سے”
اس نے سر اٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھا دیا، ایک روشن رستہ بتا دیا۔ وہ شہید ہو کر امر ہو گئی۔ وہ زندہ رہے گی۔ اس کے دشمن زندہ رہ کر بھی مردہ ہیں اور وہ مر کر بھی زندہ ہے۔
وہ ہر لحاظ سے بینظیر تھی۔نور کی لکیر تھی۔
اسے پاکستان کے مظلوموں اور مجبوروں کا سرخ سلام۔
زندہ ہے بی بی زندہ ہے
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے.
بینظیر ایک دیو مالائی کردار تھیں۔ بینظیر نے اس کردار میں حقیقت کے گوناگوں رنگ بھر دئیے۔ بینظیر نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ بینظیر صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈر نہ تھیں بلکہ پورے پاکستان، پورے عالم اسلام کی لیڈر اور پوری دنیا کی روشن خیال راہنما تھیں۔ وہ بدترین دشمنوں کے بیچوں بیچ حق کا پرچم تھامے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہی۔ وہ بھٹو شہید کی قابل فخر اور بینظیر بیٹی ثابت ہوئیں۔ انہوں نے مشکل حالات میں اپنے والد کے سیاسی مشن کو کامیابی سے جاری رکھا۔ شادی کی اور بہترین بیوی ثابت ہوئیں۔ بینظیر کو شوہر بھی شایان شان ملا اور یہ کریڈٹ مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کو جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ جانتی تھیں کہ بینظیر کا شوہر ایسا ہونا چاہئے جو بینظیر کے دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے، جو ظالم کی مار سہہ سکے، الزامات کی بوچھاڑ سہہ سکے، طویل قید اور بدترین کردار کشی کا مردانہ وار مقابلہ کر سکے۔ ایسا شخص جو سیاسی طور پر باشعور ہو، بھٹو کے فلسفے کو گہرائی سے سمجھتا ہو، بینظیر کو دل و جان سے چاہنے والا ہو، بینظیر کی وجہ سے پیش آنے والے مصائب کو مسکراتا ہوا برداشت کرے، اس کی نظر تاریخ پر ہو۔ آج دشمنوں نے آصف پر کوئی ایسا الزام نہیں جو نہ لگایا ہو، اسے توڑنے کے لئے کوئی ایسا حربہ نہیں جو نہ آزمایا گیا ہو۔ مگر وہ نہ ٹوٹا، نہ جھکا، نہ بکا۔ وہ صحیح معنوں میں بھٹوازم اور بینظیر کا دیوانہ ثابت ہوا، بھٹو اور بینظیر کے سیاسی فلسفے کا بہترین وارث ثابت ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ آصف کا قابل فخر کردار نمایاں تر ہوتا رہیگا۔ الزامات لگانے والے کہیں نظر نہ آئیں گے، شرمندہ ہو ہو کر مردہ ہو جائیں گے۔ بینظیر کے لئے آصف زرداری کے انتخاب کا کارنامہ دوربین و دوراندیش پاکستان کی مادر جمہوریت اور دختر ایران عظیم المرتبت بیگم نصرت بھٹو نے انجام دیا۔ بینظیر کے بینظیر کارناموں میں آصف زرداری کا کردار نہائت اہم ہے۔ صرف آصف کا ہی نہیں پورے زرداری خاندان کا کردار اہم ہے۔ حاکم علی زرداری کا کردار اہم ہے۔ حاکم علی زرداری کا پس منظر ایک روشن خیال سیاستدان کا ہے۔ وہ 1962 میں ایوب خان کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر نوابشاہ سے منتخب ہوئے۔ وہ سندھ کی ایک معزز شخصیت تھے، کامیاب بزنس مین تھے۔ یہ سب پس منظر بیگم نصرت بھٹو کے علم میں تھا۔ انہیں یقین تھا کہ مشکل حالات میں پورا زرداری خاندان بینظیر کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ ان کرداروں پر مستقبل میں بہت کچھ لکھا جائے گا اور حقیقتیں مزید اجاگر ہوں گی۔ کیونکہ حقیقتیں تو واضع ہو کر ہی رہتی ہیں۔
بینظیر نے بہترین بیوی ہونے کا کردار نبھایا۔ آپ بینظیر کا ذکر کرتے ہوئے آصف زرداری کی آنکھوں کی نمناکی اور چہرے کی اداسی دیکھ سکتے ہیں- بینظیر نے صرف سیاست نہیں کی بلکہ عورت ہونے کے تمام کردار بینظیرانہ انداز میں نبھائے۔ نا مسائد حالات میں سیاسی و حکومتی فرائض کے ساتھ ساتھ تین بچے بھی پیدا کئے اور ان کی بہترین تربیت بھی کی۔ جنرل مشرف نے بینظیر پر جو آٹھ سالہ جلاوطنی نافذ کی، اس میں بینظیر کو سنہری موقعہ مل گیا، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کی تعلیمی اور سیاسی تربیت کا فریضہ بھی بینظیر طریقے سے سر انجام دیا۔ گویا بھٹو کی سیاست کو دوام بخشا اور زرداری خاندان کو قابل فخر وارث دئیے۔. بینظیر ہر لحاظ سے بینظیر تھیں:
بینظیر بیٹی، بینظیر راہنما، بینظیر سیاستدان، بینظیر بیوی، بینظیر بہو، بینظیر ماں۔ بینظیر نے دیومالائی داستانوں کو زندہ حقیقت بنا دیا۔
حیراں ہے قاتل، خنجر شرمندہ ہے
قاتل مردہ، جو قتل ہوئی وہ زندہ ہے۔
زندہ ہے بی بی زندہ ہے.