پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، اعلیٰ عدلیہ میں بھی مینارٹیز سے ججز آنے چاہیں، اعظم نذیر تارڑ
یوتھ ویژن : ( طاہر ایوب سے ) پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، اعلیٰ عدلیہ میں بھی مینارٹیز سے ججز آنے چاہیں، اعظم نذیر تارڑ
وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا درس دیتا ہے،خواہش ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں مینارٹیز سے بھی ججز آئیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں مقامی ہوٹل میں جسٹس اے آر کارنیلئس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کا اہتمام برائٹ فیوچر سوسائٹی اور امپلی مینٹیشن مینارٹی رائٹس فورم پاکستان نے کیا تھا۔ کانفرنس میں سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج سید منصور علی شاہ،جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس( ر) تصدق حسین جیلانی،صدر لاہور ہائی کورٹ بارمنیرحسین بھٹی، چوہدری عمران مسعود، ڈاکٹر شعیب سڈل،سموئیل پیارا سمیت وکلا ، بیوروکریٹس اور مینارٹی کمیونٹی کی کثیر تعداد موجود تھی۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان مذہبی رواداری کے حوالے سے ایسا نہیں تھا جو افغان جنگ کے بعد ہمیں ملا ،جو کہ تکلیف دہ بات ہے۔ انہوں نے قرآن اور احادیث کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا مذہب اقلیتوں کے حقوق کا مکمل درس دیتا ہے،قائد اعظم محمد علی جناح کا وژن بھی یہ تھا کہ پاکستان میں بھائی چارہ کا معاشرہ پروان چڑھے جہاں تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایک پرچم تلے متحد ہو کر ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ مینارٹی رائٹس کمیشن کی تشکیل کیلئے کام جاری ہے ، چائلڈ میرج کی روک تھام کے حوالے سے بجٹ کے بعد کام ہو گا ۔ انہوں نے مینارٹیز کیلئے لا آفیسرز اور لیگل ایڈوائزر کا کوٹہ رکھنے کی تجویز کی حمایت کی۔ وفاقی وزیر نے کانفرنس میں شریک جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے دور میں اقلیتوں سے متعلق بہت اچھے فیصلے کئے۔
ہم سب کیلئے ایک ٹھنڈی ہوا کا دریچہ کھولا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ایک پرچم کے نیچے متحد ہونا چاہے ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی رویوں میں بتدریج تبدیلی آتی ہے ، عدم برداشت کا کلچر تکلیف دہ ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ جسٹس کارنیلئس کے حوالے سے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انہوں نے اپنے فیصلوں سے ثابت کیا کہ نظام انصاف سب کیلئے برابر ہو ،وہ بڑا نام چھوڑ کر گئے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کا آئین اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں اقلیتوں سے بھی ججز آئیں ۔ آئین میں سب شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قومی پرچم میں سفید پٹی اقلیتوں کا حصہ ظاہر کرتی ہے ، دنیا کا واحد پرچم پاکستان کا ہے جس میں اقلیتوں کی نمائندگی ہے ، میں یہ کہوں گا کہ چاند اور ستارہ بھی ہماری اقلیتیں ہیں ۔ دیگر مقررین نے کہا کہ ہم اپنے سینئر جسٹس کارنیلئس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جسٹس کارنیلئس مجسم انصاف تھے، انہیں قانون سمیت دوسرے بہت سے علوم پر کمال حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس کارنیلئس نے دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں سے تعلیم حاصل کی، وہ سول سروس کے عہدے پر تعینات ہوسکتے تھے مگر انہوں نے قانون و انصاف کے شعبے کا انتخاب کیا، انہوں نے سپریم کورٹ کو 17 برس دئیے، وہ ایک اچھے قانون دان اور سادگی پسند انسان تھے اسی لیے ان کی زندگی ججز کے لیے ایک مثال ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، جسٹس کارنیلئس نے گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی کو توڑنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔مقررین نے اقلیتوں کے حقوق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین نے مذہبی اظہار اور مذہبی اداروں کو نظم و نسق اور اخلاقیات سے مشروط کرنے کی آزادی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی شہری کو ذات، نسل، مذہب، مقام یا پیدائش کی بنیاد پر ایسے تعلیمی اداروں میں داخلے سے انکار نہیں کیا جا سکتا جن کو عوامی آمدن سے امداد فراہم کی جاتی ہو۔انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین کہتا ہے کہ ہر کوئی اپنے مذہب کا دعوی کرنے میں آزاد ہے اور تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں چیف جسٹس(ر ) تصدق جیلانی کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اس چیلنج کو اٹھایا اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہدایات لے کر آئی جس میں مذاہب کے خلاف نفرت انگیز بات نہ کرنے کو یقینی بنانا، عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے ٹاسک فورس اور خصوصی پولیس فورس کا قیام اور اداروں میں تعلیمی کوٹہ دینا شامل تھا۔انہوں نے کہا کہ عدالت کے مقرر کردہ سابق پولیس افسر شعیب سڈل نے کئی برسوں تک عدالت کی ان ہدایات پر عمل درآمد کیا۔ان کا کہنا تھا کہ آج اقلیتیں اس فیصلے کو اپنے حقوق کے تحفظ کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔مقررین نے واضح کیا کہ اسلام فرقہ واریت کی حمایت نہیں کرتا ، انہوں نے قرآن کریم کی متعدد آیات کا حوالہ دیا جس میں اس بات کا ذکر ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مذاہب کے اعمال کی توہین نہ کریں، انہیں اپنے مذہبی اعمال کرنے دیں۔ کانفرنس کے اختتام پربرائٹ فیوچر سوسائٹی اور امپلی مینٹیشن مینارٹی رائٹس فورم پاکستان کی جانب سے معزز مہمانوں میں سرٹیفکیٹس تقسیم کئے گئے۔