نیب ترامیم کےکئی شقیں کالعدم قرار،سپریم کورٹ نے کیس بحال کر دیے
یوتھ ویژن نیوز :سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی کئی شقیں کالعدم قرار دے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی اس بینچ کا حصہ ہیں۔
اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل آخری دن چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لیڈیز اینڈ جنٹلمین، دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنا رہے ہیں۔
فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے نیب کی تمام ختم انکوائریز اور کیسز بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کر دیے اور کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابلِ سماعت قرار دی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 شقیں اڑا دیں، 1 برقرار رکھی ہے۔
نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14، 15، 21 ، 23، 25، 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔
عدالت نے فیصلے میں نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن 14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دے دی، 50 کروڑ کی حد تک کے ریفرنس نیب کے دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دیتے ہوئے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کر دیے اور کہا ہے کہ تمام ختم انکوائریز اور کیسز بحال کیے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ تمام کیسز نیب عدالتوں اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جائیں۔
سپریم کورٹ نے نیب کو 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجنے کا حکم بھی دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق برقرار رکھی ہے جبکہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کر دیے گئے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفادِ عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے۔
نیب ترامیم کیس کا پس منظر
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کےخلاف درخواست پر 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیاتھا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر53 سماعتیں کیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ترامیم کے خلاف دلائل دیے۔
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم کے حق میں دلائل دیے۔
آخری سماعت پرچیف جسٹس نے معاونت کرنے پرتمام فریقین کا شکریہ ادا کیا، آخری سماعت پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ “شارٹ اینڈ سویٹ” فیصلہ دیں گے۔
آخری سماعت پر چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ سنانے کا کہا تھا۔
آخری سماعت پر اٹارنی جنرل بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے تھے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت دی تھی۔
نیب ترامیم کیخلاف سماعت کیلئے 15 جولائی 2022 کو خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا۔
نیب ترامیم کیخلاف چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا۔
خصوصی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصورشامل تھے۔
نیب ترامیم کے خلاف کیس کی پہلی سماعت 19 جولائی 2022 کو ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ترامیم کیخلاف184/3 کی درخواست دائر کی۔
نیب ترامیم کے خلاف درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26 میں کی گئی ترامیم آئین کےمنافی ہیں، سیکشن 14، 15، 21 اور 23 میں کی گئی ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ نیب قانون میں یہ ترامیم آرٹیکل 9، 14، 19 ،24، 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی کہ نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔