توشہ خانہ کیس:عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی
توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نےسماعت کل تک ملتوی کردی۔
تفصیلات کے مطابق عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے پبنچ کی سربراہی کی،چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ ہماری استدعا ہے عدالت عمران خان کی سزا معطل کرے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکور ٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا آرڈر ملا ہے۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ رکھا تھا کہ پہلےدائرہ اختیار دیکھا جائے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کھوسہ صاحب! ماتحت عدلیہ سے غلطی ہوئی ہے تو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے دوران سماعت کہاکہ دائرہ اختیار کا معاملہ تاحال طے نہیں ہوا۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ پیش نہیں ہو رہے، ان کے منشی کو اغوا کیا گیا تھا،خواجہ حارث کا اس متعلق بیان حلفی دے رہا ہوں، سماعت کا دائرہ اختیار طے کئے بغیر کیس کی کارروائی آگے بڑھائی ہی نہیں جا سکتی۔
لیطف کھوسہ نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 3گراؤنڈز پر سزا معطلی کیلئے دلائل دوں گا، سب سے پہلے عدالت نے دائرہ اختیار کو طے کرنا ہے،کیس میں سیکرٹری ،ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو اتھارٹی دے رہا ہے، عمران خان کو ٹرائل کورٹ نے 3سال سزا سنائی، صدر پاکستان عارف علوی نے 14اگست کو قیدیوں کی 6ماہ سزا معاف کی،چیئرمین پی ٹی آئی کی 6ماہ کی سزا معاف ہو چکی ہے،عمران خٰان کی سزا کا دورانیہ پہلے بھی کم اور 3سال قید تھا۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ٹرائل کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم نامہ کو نظرانداز کیا،ٹرائل کورٹ نے دائرہ اختیار کے معاملے پر تیسری بار بھی فیصلہ نہیں دیا،الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور 4ممبران پر مشتمل ہوتا ہے،ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ موجود نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہاکہ وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ جی بالکل! وہ اجازت نامہ درست نہیں۔لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظرانداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 8سوالات پر دوبارہ فیصلے کا حکم دیا،ٹرائل کورٹ نے ان سوالات کا جواب دیئے بغیر اپنے پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیا۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے تھےکہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی نہیں مانا، کیا ٹرائل جج کا یہ کنڈکٹ ٹھیک ہے،یہ ہائیکورٹ نے دیکھنا ہے،فیصلوں کے حوالے لایا ہوں جہاں دائرہ اختیار کا فیصلہ سب سے پہلے ہونا ہوتا ہے،کمپلینٹ ٹرائل کیلئے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جاسکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیاہے،کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائےگی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاکہ ہائیکورٹ کو عمران خان کی اپیل منظوری کا فیصلہ 4اگست کی شام ملا،5اگست کو خواجہ حارث کے منشی کو اغوا کیا گیا،بیان حلفی موجود ہے،خواجہ حارث نے وجہ لکھی کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ پیش نہیں ہو سکے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس ہائیکورٹ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے باعث حبس اور گرمی بڑھ گئی،کمرہ عدالت میں لگے اے سی بھی کام کرنا چھوڑ گئے۔آپ کو شاید تھوڑی بہت ہوا آرہی ہو، ہمیں تو بالکل بھی نہیں آرہی۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اے سی کے وینٹ کے سامنے نہ کھڑے ہوں تاکہ ہوا نہ رکے۔
دوران سماعت ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا، استدعا ہے کہ عمران خان کی سزا معطل کردی جائے،سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر دلائل کیلئے دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا؟
لطیف کھوسہ نے کہاکہ بالکل نہیں، جو فیصلہ انہوں نے دیا وہ ہائیکورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے،سپریم کورٹ کی آبزرویشن بھی ہے میں اس پر نہیں جاؤں گا۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نے وجوہات دی ہیں؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ جی ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دیں،ٹرائل جج نے آپ کو اگنور کیا، سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا، لطیف کھوسہ کے دلائل پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
جسٹس طارق جہانگیری نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے دفاع کے گواہوں کو کس بنیاد پر غیرمتعلقہ کہا؟
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دینے کی وجہ لکھی ہی نہیں،ٹرائل کورٹ نے عمران خان کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قراردیدیا،کیا فوجداری تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے؟ہائیکورٹ میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر نوٹس جاری ہو چکا تھا، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کوحتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں اگر ہائیکورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہئے تھا۔عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی۔
لطیف کھوسہ نے کہاکہ عدالت نے کہاوکیل دفاع گواہان کو کیس سے متعلق ثابت کرنے میں ناکام رہے، اس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا۔جج صاحب نے کہاکہ گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں،گواہ اس روز کراچی میں موجود تھے،عدالت نے پوچھا آپ گواہان کو کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں؟میں نے کہا کہ میرے گواہ ہیں، اپنے خرچے پر پیش کررہا ہوں، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟ملزم کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے سےروکا ہی نہیں جا سکتا،ایک شخص اپنا دفاع پیش کررہا ہے آپ کیسے اسے روک سکتے ہیں،4گواہ تو پیش کررہے تھے کوئی 40تو نہیں تھے،ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ میں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے جیل گیا،ملاقات کے دوران ہمارے بیچ ایک پولیس وردی والا شخص بٹھا دیا گیا، میں چیئرمین پی ٹی آئی سےسیاسی امور پر بات کرنے نہیں گیا تھا،بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ بات عدالتی ریکارڈ پر نہیں ہے وہ نہ کہیں،وفاق چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل سہولیات بارے تحریری جواب دے۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ گوشوارے جمع ہونے کے 120 دن کے اندر کمپلینٹ دائر کی جا سکتی ہے، یہ کمپلینٹ گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی،یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرائل سیشن کورٹ ہی کرنے کا اختیار رکھتی ہے،لیکن سیشن کورٹ کو مجسٹریٹ کمپلین بھیجے گا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی بالکل قانون طریقہ کار کے مطابق ایسا ہی ہوگا۔
بیرسٹر گوہر روسٹرم پر آگئے اوردلائل دیتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ فوجداری مقدمہ میں عدالتی دائر اختیار پر سوال ہے،ہم نے ٹرائل کورٹ کے مختلف فیصلوں پر اس عدالت سے رجوع کیا،اسی عدالت نے ہمارے اپیل پر 2 دفعہ ریمانڈ بیک کیا،عدالتی حکم کے باوجود ٹرائل کورٹ نے ہمیں نہیں سنا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہیں جانا ہے تو آپ چلے جائے ہم تب تک بیرسٹر گوہر کو سن لیتے ہیں۔
عدالت نے بیرسٹر گوہر کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس کمپلین میں جو سی آر پی سی کے تحت طریقہ کار ہے وہی اپنایا جائےگا،اس حوالے سے ہم نے درخواست بھی دائر کی تھی لیکن جج صاحب نے خارج کردی،اس کیخلاف ہم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں فوجداری نظر ثانی کی درخواست دائر کی،اسلام آباد ہائیکورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ بیک کردیا،جج صاحب نے ہمیں سنے بغیر ایک بار پھر خارج کردی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز روسٹرم پر آگئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 5 اگست کو سزا سنائی گئی،8 اگست کو فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے حق دفاع ختم کرنے کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے تھے،انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ ڈویژن بینچ ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ملزم 342 کے بیان میں کہتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنا چاہتا ہے،اس کا مطلب ہے کہ ملزم نے مانا کہ پراسیکیوشن نے اپنا کیس ثابت کردیا اب دفاع میں گواہ پیش کرنے چاہیئں،الیکشن کمیشن کے فارم بی پر تحریری کرنے کیلئے معلومات تو ملزم نے خود دینا ہوتی ہیں،اکاؤنٹینٹ، ٹیکس کنسلٹینیٹ نے خود سے تو معلومات پر نہیں کرنا ہوتیں،یہ مس ڈیکلیریشن کا کیس ہے،امجد پرویز نے خلیفہ راشد دوم حضرت عمر رضی اللہ انہہ کا حوالا دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عمر نے قرار دیا کہ ارباب اختیار کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں، عمران خان نے کوئی جیولری یا گاڑی تو ڈیکلیئر نہیں کی،چیئرمین پی ٹی آئی کی ریٹرن میں چار بکریاں مسلسل ظاہر کی جاتی رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے،سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی،یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا،گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں نا،یہ تو کلائنٹ نے بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے،چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی فیملی کے پاس 3 سال تک کوئی جیولری یا موٹرسائیکل تک نہیں تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں تو خود نہیں کر سکتا،ان کے 3 سوالات ہیں ایک مجسٹریٹ والا ہے ایک دورانیے والا ہے ایک اتھارٹی والا ہے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ان کا سوال یہ بھی ہے ان کو آخری دن سنا نہیں گیا ان کا حق دفاع بھی ختم ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان کا یہ کہنا ہے اگر چہ اسٹے نہیں تھا اس کے باوجود نوٹس تو اس عدالت نے کر رکھا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی معاملہ زیر التوا تھا سنگل بنچ میں بھی ان کی پٹیشن زیر التوا تھی،اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لکھتا کلائنٹ ہی بتاتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم اگر چہ لیگل کمیونٹی سے ہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے گوشواروں میں 4 بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں،اپیل الیکشن ایکٹ کے سیکشن 190 کے تحت دائر کی گئی،یہ سیکشن صرف اپیل کا فورم بیان کر رہا ہے،اس سیکشن کے تحت حتمی فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی،اپیل کی نوعیت سماعت کے طریقہ کار سے متعلق الیکشن ایکٹ کے حصہ 7 میں پورا چیپٹر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان کا یہ کہنا ہے اگر چہ اسٹے نہیں تھا اس کے باوجود نوٹس تو اس عدالت نے کر رکھا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ درخواست گزار ریاست کی قید میں ہے،ریاست کی قید میں ہونے پر ریاست کو فریق بنانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی تو ہم ضمانت کے معاملے پر چل رہے ہیں اپیل پر بات نہیں کررہے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اس وجہ سے درخواست خارج کردیں،میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس جاری ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نےریمارکس دیئے کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے، حکومت کو نوٹس جاری کردیئے جائیں تو حکومت آ کر کیا کرے گی؟
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ملزم تو حکومت کی تحویل میں ہے نہ،یہ قانون کا تقاضا ہے، قانون آپ کے سامنے ہے، سادہ زبان ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ جن کیسز کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں ایف آئی آر کے تحت ٹرائل ہوا،اس کیس میں ٹرائل سے پہلے کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی،اس کیس میں کوئی ایف آئی آر موجود نہیں ہے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ قانون کی متعلقہ دونوں شقیں کہتی ہیں کہ ریاست کو نوٹس جاری کیا جانا ہے، سزا کے خلاف اپیل پر ریاست کو نوٹس ضروری ہے،ریاست کے پاس فیصلے کے دفاع کا حق موجود ہے، ریاست نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ فیصلے کا دفاع کرے گی یا نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو لگتا ہے کہ ریاست آ کر کہے گی کہ سزا غلط دی گئی؟یہ مختصر سزا ہے اور یہ بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے کہ بغیر نوٹس سزا معطل ہوئی ہو،مختصر سزا پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے احکامات موجود ہیں،ایک کیس میں ملزم کو ٹرائل کے بعد ساڑھے 2 سال کی سزا سنائی گئی تھی،ملزم نے ہائیکورٹ میں شارٹ سینٹس کی بنیاد پر معطلی کی اپیل کی،ہائیکورٹ نے اس کی اپیل خارج کی،معاملہ سپریم کورٹ گیا،سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا،سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کہا کہ قابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمات میں بھی سزا معطل نہیں ہوسکتی،3 سال کی سزا معطلی حق نہیں، عدالت کے استحقاق پر منحصر ہے۔
وکیل امجد پرویز نے سپریم کورٹ، لاہور اور سندھ ہائیکورٹ کے مختلف فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ ابھی تک نافذ العمل ہے،سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی کی گئی نہ ہی چیلنج ہوا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چئیرمین تحریک انصاف کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ کل جمعہ ہے سماعت نہ رکھیں،یہ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ چھٹی والے دن عدالت کھل گئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کل ڈویژن بنچ نہیں ہے لیکن ہم کیس سن لیں گے۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل 11:30 تک ملتوی کر دی