میں اللّٰہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے,عارف علوی

arif alvi

اسلام آباد: (ثاقب غوری سے) صدر مملکت جناب ڈاکٹر محمد عارف علوی نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ "میں اللّٰہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ اللہ سب جانتا ہے، وہ انشاء اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔” واضح رہے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 75کے مطابق صدرِ مملکت کو جو بھی بل پارلیمنٹ بھیجتی ہے تو صدر کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں- ایک یہ کہ وُہ اُسے سائن کر دے؛ دوسرا یہ کہ وہ دس دن کے اندر آبزرویشنز لگا کر اپنے سائنز کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دے اور جب پارلیمنٹ اُسے بل کو دوبارہ واپس بھیجے تو وہ اُسے دس دن کے اندر سائن کرے ورنہ وہ بل دس دن کے بعد آٹومیٹیکلی ازخود قانون بن جائے گا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پارلیمنٹ نے جس تیزی سے یہ بل پاس کیے اور صدر مملکت کو بھیجے ، ان بلوں سے متعلق متعدد سیاسی رہنماء اور وکلاء صاحبان، اور صحافی و تجزیہ نگار اپنے تحفظات کا اطہار کر چکے ہیں۔ صدر مملکت نے اپنے ٹوئیٹ میں بھی لکھا ہے کہ وہ ان ترمیمی بلوں کے کانٹینٹ سے متفق نہیں تھے اس لئے انہوں نے اپنے سٹاف کو یہ بل پارلیمینٹ کو واپس بھیجنے کو کہا تھا۔ صدر مملکت کے اس ٹوئیٹ کو لے کر ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ تمام ملکی سیاسی و صحافتی حلقے مختلف زاویوں سے اس خبر کے مختلف پہلووں پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی آراء دے رہے ہیں۔ جبکہ نگران حکومت کے وزیر اطلاعات اور وزیر قانون نے آج شام پریس کانفرنس ہوئے اس خبر سے متعلق اپنا حکومتی موقف بیان کیا۔ وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کا کہنا تھا کہ انکے مطابق وزارت قانون کی پریس ریلیز کے بعد ابہام ختم ہو گیا ہے، صدر مملکت کے اس آئینی عہدے پر رہنے کی خواہش یا منشا کا علم نہیں۔ صدر مملکت ریاست کے سربراہ ہیں اور ان کی بہت تعظیم ہے،کوئی توقع نہ کرے کہ ہم صدر کی تعظیم کے خلاف کوئی بات کریں گے، دوران صدارت صدر مملکت کے خلاف کسی قسم کی کوئی تفتیش نہیں ہو سکتی، صدر کو یہ آئینی تحفظ حاصل ہے۔ کوئی قانونی و آئینی ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرے تو نگران حکومت آئین کے اندر رہتے ہوئے جواب دے گی۔ ابہام دور کرنے کے لئے نگران حکومت کی کوشش کو سیاسی رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ ملک میں قوانین اور ان کا نفاذ کرنے کے لئے ادارے موجود ہیں۔ شہریوں کے حقوق کی فراہمی اور آئین و قانون کی بالادستی کے لئے پورا نظام موجود ہے۔ مفروضوں پر نہیں بلکہ حقائق پر بات کریں گے۔ صدر کے ٹویٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال کی وضاحت ہو چکی ہے، وزارت قانون کا پریس ریلیز بھی جاری ہوا، وزیر قانون نے بھی اس حوالے سے تفصیل سے آگاہ کر دیا ہے۔ ہم قطعاً ایسا کوئی عمل نہیں کریں گے جو آئین و قانون کے خلاف ہو۔ ایسا قطعاً نہیں چاہیں گے کہ ایوان صدر جا کر ریکارڈ قبضے میں لیں۔ ہمارے حکومتی نظام میں کوئی خلاءنہیں، موجودہ نگران حکومت آئین کے تحت قائم ہوئی ہے۔ اگر کسی قسم کا کوئی ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا جواب آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر دینے کی کوشش کریں گے۔

ہم نے آئینی عہدوں کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ہم مفروضوں پر بات نہیں کرتے،

صدر مملکت کے عملہ کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، ہم انہیں کوئی مشورہ نہیں دے سکتے، یہ ہمارا اختیار نہیں ہے۔ جبکہ نگران وفاقی وزیر قانون و انصاف کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کا کوئی سیاسی مینڈیٹ نہیں، ہم سیاسی گفتگو سے گریز کریں گے۔ صدر مملکت کی جانب سے یہ بل واپس موصول نہیں ہوئے۔ آئین کے آرٹیکل 75 میں دس دن کی مدت واضح انداز میں دی گئی ہے۔ سیاسی ابہام پیدا نہ ہو، اس لئے آرٹیکل 75 میں دس دن کی مدت کا تعین کیا گیا ہے۔ اس مدت کے اندر اگر صدر اختیار استعمال نہیں کرتے تو بل قانون بن جاتا ہے۔

https://twitter.com/ArifAlvi/status/1693187170927030337
50% LikesVS
50% Dislikes