فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،ملک میں قانون کون ساچلےگافیصلہ عوام کرے گی،چیف جسٹس پاکستان

یوتھ ویژن نیوز: چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے فوجی عدالتوں کے کیس میں ریمارکس دیئے کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے تاریخ سب دیکھ رہی ہے،ہم اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے جبکہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی خلاف درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی ۔
تفصیلات کے مطابق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجربینچ سماعت کررہا ہے۔بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں ۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے درخواست پر گزشتہ روز محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ستمبر سے پہلے فل کورٹ بنانا ممکن نہیں،ججز میسر نہیں ہیں کچھ جج چھٹیوں پر ہیں، عدالت نے پہلے ہی میسر ججز پر مشتمل نو رکنی لارجر بینچ بنایا تھا۔اس لیے درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس کی سماعت شروع کردی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جہاں پردلائل رکے تھے وہاں سے ہی شروع کردیں۔
جس پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ گزشتہ روز فیصل صدیقی کی فل کورٹ سے متعلق درخواست سنی گئی، جہاں تک اس کیس کا تعلق ہے تمام تریقین دہانیاں کرائی جاچکی ہیں، زیرِ حراست تمام افراد کو سہولیات دینے کی یقین دہانی کرادی ہے۔اہلِ خانہ سے ملاقات اور وکیل کرنے سمیت فئیر ٹرائل کا حق دیا جارہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل لطیف کھوسہ نے گرفتار ملزمان سے ناروا سلوک کی شکایت کی،میں نے خود چیک کیا، کسی ملزم کے ساتھ ناروا سلوک نہیں ہوا،ملزمان کو صحت سمیت تمام سہولیات میسر ہیں،ملزمان کے خلاف ناروا سلوک ہوا تو ایکشن ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سیلابی ریلہ سےسڑک بہہ گئی،شاہراہ قراقرم ہرقسم کی ٹریفک کیلئے بند
عدالت نے وکیل فیصل صدیقی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ہم آپ کے تحفظات کی قدر کرتے ہیں، دو مواقعوں پر پہلے دیگر بینچز معطل کرکے فل کورٹ بنائی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے فل کورٹ کی تشکیل پرمشاورت کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنا کام جاری رکھیں گے چاہے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے، ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں، ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں، ہم صرف اللہ کوجوابدہ ہیں اس لیےکام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گوگل نے اپنی سروس گوگل میپس میں بڑی تبدیلی کردی
’قانون میں پک اینڈ چوز کی اجازت نہیں‘
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کوئی آزاد ادارہ ہونا چاہیے جو جائزہ لے کہ گرفتاریاں ٹھوس وجوہات پر ہوئیں یا نہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس میں کہا کہ ان ایک سو دو افراد کے علاوہ باقی افراد کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟قانون میں پک اینڈ چوز کی اجازت نہیں