ترقی پذیر ممالک کے پیچھے رہ جانے کی وجہ کرپشن اور اشرافیہ کی بدعنوانی ہے وزیر اعظم عمران خان

pm 6 696x404 1

اسلام آباد۔ (واصب ابراہیم غوری سے ):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انتخابات میں طاقتور ، وار لارڈز اور جرائم پیشہ افراد آگے آ جاتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کے پیچھے رہ جانے کی وجہ کرپشن اور اشرافیہ کی بدعنوانی ہے،پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، ناکامی کا ملبہ بھی ہمارے اوپر ہی ڈال دیا گیا، اب بھی افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہو جاتی تو اس کا سارا الزام پاکستان پرآ جانا تھا، بھارت کشمیر میں جو کر رہاہے مغرب اس پرتنقید نہیں کرتا اگر کوئی اور ملک اس طرح کررہا ہوتا توبہت شور مچتا،ہمارے ملک میں اردو میڈیم ، انگلش میڈیم اور دینی مدارس کی تعلیم تین طرح کے نظام چل رہے ہیں،غیر مساوی ترقی انتشار کا سبب بنتی ہے، ہمیں تھنک ٹینکس کے ذریعے ہمیں اپنا صحیح تشخص اور حقیقی نکتہ نظر دنیا پر واضح کرنا چاہیے۔ا ن خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام مارگلہ ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ قوموں کے درمیان فرق ہی قانون کی حکمرانی کا ہے ۔ غریب ممالک میں وسائل کی کمی غربت کا سبب نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی سے ہی معاشرے میں میرٹ اور تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ جموریت وہیں مستحکم ہوتی ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو ۔ اگر قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انتخابات میں طاقتور ،وار لارڈز اور جرائم پیشہ افراد آگے آ جاتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی اس طرح کے جرائم پیشہ افراد کو آگے آنےسے روکتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بدعنوانی قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی ایک علامت ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے پیچھے رہ جانے کی وجہ کرپشن اور اشرافیہ کی بدعنوانی ہے۔ ہمارے ملک میں تحقیق کے شعبے میں بہت کم کام ہوا کیونکہ تحقیق سے حقیقی سوچ پروان چڑھتی ہے کیونکہ اگر تحقیق نہ ہو تو پھر دوسرے لوگ ہمارے بار ے میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں ۔ ہم اپنی رائے سے حقائق سامنے نہیں لا سکتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغان جنگ میں امریکا کا اتحادی بنا لیکن ناکامی کاسارا ملبہ پاکستان پر ہی ڈال دیاگیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ۔ امریکا کے کسی دوسرے اتحادی کااتنا نقصان نہیں ہوا۔ 30 سے 40 لاکھ افراد بے گھرہوئے جبکہ ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ پچھلے 10، 12 سال کے دوران کسی مغربی ملک کے اخبار نے پاکستان کو اس کا کریڈٹ نہیں دیاالٹا پاکستان کو ڈبل گیم کرنے کا الزام دیا جاتا رہا۔

غلطیاں وہ خود کررہے تھے اور مورد الزام پاکستان کو ٹھہرایا جا رہاتھا۔ ہم ان الزامات کا اس وجہ سے جواب نہیں دے پا رہے تھے کیونکہ ہمارے ملک کی قیادت کی رہنمائی کرنے کے لئے کوئی تھنک ٹینک موجوود نہیں تھا۔ مسائل کے حل کے لئےہمیں لیڈر شپ کی کمی کا سامنا تھا۔۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی افغانستان میں اگر طویل خانہ جنگی ہو جاتی تو اس کا سارا الزام پاکستان پرآ جانا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے محفوظ رکھا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے لئے یہ انتہائی سبکی کی بات تھی کہ ہم جن کا ساتھ دے رہے تھے وہ ہمیں اتحادی بھی قرار دے رہے تھے ، ہمارے اوپر بمباری بھی کررہے تھے، ہمارے لوگوں کی جانیں بھی جا رہی تھیں لیکن الزام بھی ہم ہی پر لگ رہا تھا اور ساتھ ساتھ امداد دینے کی باتیں بھی کی جا رہی تھیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ اس وقت ہمارا ملک بھی دو طبقات میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک طبقہ امریکا کا مخالف تھا اور دوسرا امریکا کی حمایت میں آگے آ گیا جس کی وجہ سے ہم اپنا نکتہ نظر اس طریقے سے دنیا کے سامنے لا ہی نہ سکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مسلمان دنیامیں ہی ایسے تھنک ٹینکس موجود نہیں تھے جو یہ جواب دیتے کہ اسلام اور دہشت گردی کاآپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے ذمہ دا رہم نہیں ہیں۔ کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ انسانی معاشروں میں انتہا پسند، اعتدال پسند اور آزاد خیال ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں لیکن مذہب کا تو دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو نائن الیون کے بعد بہت مشکلات کا سامنا کرناپڑا لیکن دنیا میں مسلمان قیادت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کشمیر میں جو کر رہاہے مغرب اس پرتنقید نہیں کرتا لیکن اگر کوئی اور ملک اس طرح کررہا ہوتا توبہت شور مچتا۔ ہمارے تھنک ٹینکس ہوتے تو وہ اس معاملے کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرتے۔ہندوستان میں نسل پرست حکومت ایک بدقسمتی ہے جس کی فاشسٹ پالیسیاں ہیں اور اقلیتوں سے ناروا سلوک کئے جا رہی ہے۔ اس وقت بھارت میں اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ قومی سلامتی کا ایک وسیع تناظر ہے۔ جب تک جامع ترقی نہ ہو قومی سلامتی یقینی نہیں ہو سکتی۔ اگر ایک چھوٹا ساطبقہ امیر ہوتا جائے اورکمزور لوگ کمزور تر ہوتے رہیں اور ایک علاقہ ترقی کرجائے یا د وتین شہر ترقی کر جائیں تو باقی ملک یاصوبہ پیچھے رہ جائیں تو وہ ملک بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ غیر مساوی ترقی انتشار کا سبب بنتی ہے۔ چند لوگوں کے امیر ہونےسے کوئی ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انسانی ترقی پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔

ہمارے ملک میں اردو میڈیم ، انگلش میڈیم اور دینی مدارس کی تعلیم کے تین طرح کے نظام چل رہے ہیں۔ دینی مدارس کوقومی دھارے میں لانے کا پہلے کبھی کسی نے نہیں سوچا۔ نوآبادیاتی نظام تعلیم کو ٹھیک کرنے کی بجائے اس میں مزید پیچیدگیاں پیدا کردی گئیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں معیاری تھنک ٹینکس کی ضرورت ہے تاکہ بہترتحقیق کے ذریعے صحیح معنوں میں قومی بیانیہ سامنے لایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی تھنک ٹینکس انتہا پسندی کی سوچ رکھنے والے عناصر کو ہی پورے معاشرے کاعکاس سمجھتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا دین عام لوگوں کو متاثر کرتا ہے ۔ ہمارا مضبوط خاندانی اور مہذب نظام ہے۔ ہمارے ہاں بھی انتہا پسندی کی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے غیر منصفانہ نظام تعلیم کو ٹھیک نہیں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تحقیق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ تھنک ٹینکس کی جیسے جیسے ساکھ بڑھے گی ہمارے لئے آسانیا ں پیداہوتی جائیں گی۔

جب بھی بیرون ملک پاکستان کے خلاف کوئی مہم چلتی ہے تو سمندر پار پاکستانیوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے۔معیاری تھنک ٹینکس کے ذریعے ہمیں اپنا صحیح تشخص اور حقیقی نکتہ نظر دنیا پر واضح کرنا چاہیے۔تقریب سے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف اور اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے قائم مقام صدر بریگیڈیئر (ر) راشد علی جنجوعہ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم کو 11 ستمبر 2001 سے افغانستان میں پاکستان کےکردار سے متعلق ایک کتاب بھی پیش کی گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں