جوڈیشل ریفارمز کے لئے جج صاحبان اپنا کردار ادا کریں وہدری فواد حسین
لاہور ۔ (واصب ابراہیم غوری سے ):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ جعلی پولیس مقابلے شہباز شریف کے دور میں ہوئے، 5500 افراد ماورائے عدالت پولیس مقابلوں میں قتل ہوئے، دو تہائی سے زیادہ لوگ شہباز شریف کے دور میں ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوئے، 1991ءسے 1999ءتک 1858 پولیس مقابلوں میں 1294 افراد قتل ہوئے، 1997ءسے 1999ءتک 771 ملزمان کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارا گیا، پرویز مشرف کی حکومت آتے ہی یہ جعلی پولیس مقابلے بند ہو گئے، سال 2000ءمیں صرف 135 پولیس مقابلے ہوئے، احمد فراز نے اپنی کتاب میں ان واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جوڈیشل ریفارمز کے لئے جج صاحبان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، صحافیوں کو ایک ہفتہ کے اندر صحت کارڈز کی سہولت دی جائے گی۔
پیر کو لاہور پریس کلب میں احمد فراز کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وہ روزنامہ پاکستان اور جنگ میں کالم لکھتے رہے ہیں، صحافیوں سے ہمیشہ سے رابطہ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نارتھ انڈیا میں اخباری صنعت کا آغاز لاہور سے ہوا، لاہور میں میڈیا کا میوزیم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ لاہور سے کس طرح صحافت کے سفر کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہا کہ احمد فراز کا اپنی کتاب اسد ساہی کے نام کرنا خوش آئند ہے، اسد ساہی کے ساتھ میرا قریبی تعلق تھا، کرائم رپورٹنگ میں انہوں نے زبردست کام کیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم سے وابستہ افراد کو احمد فراز کی کتاب ضرور پڑھنی چاہئے، کتاب میں بہت اہم اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔ کتاب میں 1990ءکے بعد پولیس نظام میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1867ءمیں انگریزوں نے پولیس کا جو نظام بنایا اسے تباہ کر دیا گیا، تھانیدار اور ایس ایچ اوز کی حیثیت ہی ختم کر دی گئی، اس نظام کو دوبارہ سے شروع کرنا ہوگا اس کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں۔
انہوں نے احمد فراز کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ساڑھے پانچ ہزار افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے، دو تہائی سے زیادہ لوگ شہباز شریف کے دور میں ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوئے، 1991ءسے 1999ءتک 1858 پولیس مقابلوں میں 1294 افراد قتل ہوئے، شہباز شریف کے دور میں جعلی پولیس مقابلوں کو عروج حاصل تھا، 1997ءسے 1999ءتک 771 ملزمان کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارا گیا، پرویز مشرف کی حکومت آتے ہی یہ جعلی پولیس مقابلے بند ہو گئے، سال 2000ءمیں صرف 135 پولیس مقابلے ہوئے۔ کتاب میں اس بات کا بھی زکر ہے کہ سابق آئی جی سندھ رانا مقبول نے اپنی تعیناتی کے دوران کئی افراد کو مبینہ مقابلوں میں مروایا۔
احمد فراز نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پولیس نے پرائیویٹ لوگوں سے پیسے لے کر مخالفین کو مارنا شروع کر دیا، شہباز شریف کی سرپرستی انہیں حاصل تھی، اس طرح کریمنل جسٹس سسٹم میں خرابیاں پیدا ہوئیں۔ طالب علم رہنما رانا ضیاءکو دریائے راوی کے قریب مبینہ جعلی مقابلے میں مار کر جعلی مقابلوں کی بنیاد رکھی گئی، اسی طرح اشرف عرف اچھو اور رشید عرف شیدو اور بالا گاڈی جیسے افرد کو جیلوں سے نکال کر پولیس مقابلوں میں مارا گیا۔
جب شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے انہوں نے پولیس کو دہشت گردی، اغواءاور دیگر جرائم کی روک تھام کے لئے پولیس مقابلوں کا فری ہینڈ دیا، اس کے نتیجے میں سینکڑوں پولیس مقابلے ہوئے۔ سبزہ زار پولیس مقابلہ 27 اپریل 1998ءکو ہوا، یہ مشہور پولیس مقابلہ تھا، پانچ لوگ عبدالرئوف، وسیم، طاہر، ریاض اور عابد چوہدری کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا، ان لوگوں کو بھی تھانوں سے نکال کر مارا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ احمد فراز نے اپنی کتاب میں ان پولیس مقابلوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ بدقسمتی سے پولیس ریفارمز اور جوڈیشل ریفارمز نہ ہونے کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہوئیں۔ پولیس، پراسیکیوشن، عدلیہ اور جیلوں کی ریفارمز جب تک نہیں ہوں گی، کریمنل جسٹس سسٹم میں ریفارمز نہیں ہو سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور پولیس کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر چیف جسٹس صاحبان اور آئی جی صاحبان کو سڑ جوڑ کر بیٹھنا چاہئے، جب تک جج صاحبان اس میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے ،ریفارمز نہیں ہو سکتیں، سینئر ججوں کو اس کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت قانون اور اٹارنی جنرل کو اس پر اپنا کام کرنا چاہئے، عدلیہ اور سینئر پولیس افسران کو بھی اپنی تشویش کا اظہار کرنا چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزیراعظم لاہور میں ایک بڑے پروگرام کا اعلان کرنے جا رہے ہیں، پنجاب میں تمام لوگوں کو دس لاکھ روپے تک ہیلتھ انشورنس دستیاب ہوگی، پچاس ہزار سے کم آمدن والے لوگوں کو 30 فیصد تک راشن پر رعایت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو ایک ہفتہ میں ہیلتھ کارڈ دیں گے، اسی طرح کیمرہ مینوں یا میڈیا ورکرز کو جن کی تنخواہیں 50 ہزار سے کم ہیں، کو آٹا، دال اور گھی پر 30 فیصد رعایت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ باقی منصوبوں کو تین مہینے لگ جائیں گے لیکن صحافیوں کو یہ سہولت ایک ہفتہ کے اندر فراہم کر دیں گے