فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس، کے خلاف بنایا گیا نورکنی بینچ ٹوٹ گیا
یوتھ ویژن نیوز : سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف بنایا گیا نو رکنی بینچ قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق کے علیحدہ ہونے سے ٹوٹ گیا،
چیف جسٹس نے نیا سات رکنی بنچ بنادیا جس نے مقدمے کی سماعت کی،سپریم کورٹ نے 9مئی کے بعد گرفتار افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا۔ؕ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائےگرفتار خواتین،بچوں اور بوڑھوں کو کہاں رکھا گیا ہے؟ کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں،صحافی آزاد نہیں ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے،کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 9رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔چیف جسٹس نے اس بار نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی بینچ کا حصہ بنایا ہے۔ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کا حصہ ہیں
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے،عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، تعجب ہوا کہ کل رات8 بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ،جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ میں کچھ آبزرویشن دینا چاہتا ہوں۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہاکہ ہمیں خوشی کااظہار تو کرنے دیں۔
میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کاحصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ خوشی کااظہار باہر کر سکتے ہیں یہ کوئی سیاسی فورم نہیں،حلف کے مطابق میں آئین،قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا،قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے،اس قانون کے مطابق بنچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے9 رکنی بینچ نےحکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہےکہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے،میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں، اس کے بعد تعجب دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31 مارچ کو عشرت علی صاحب نے سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے 31 مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلےکی؟ پھرسپریم کورٹ نے6 ممبر بینچ بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقیناً مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیئے کہ اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنےکے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہےمعطل نہیں کیا جاسکتا، مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔
نامزد چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا کہ نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنےسےروک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونےپر جواب بھی جمع کرایا۔
میں اس بینچ کو "بینچ” تصور نہیں کرتا:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی، آج کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی، میں اس بینچ کو "بینچ” تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں، سب سے معذرت چاہتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں۔جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔
جسٹس سردار طارق مسعودکا بھی اعتراض
اس موقع پر نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر جج جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کردیتے ہیں کہ اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نےریمارکس دیئے کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔
اعتزاز احسن کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اپیل
درخواست گزار اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ کیس سن لیجیے، میری استدعا ہے قاضی صاحب سے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بار میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کردوں۔
اعتزاز احسن نےکہا کہ گھر کے تحفظ کے لیے کیس سن لیجیے، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں، آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں اگر میں اتفاق بھی کروں تو کہوں گا آپ بینچ میں بیٹھ جائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ بڑے قانون دان اور سینیئر ہیں، آپ کہتے ہیں میں اس بار اپنا حلف توڑدوں؟
عتزاز احسن نے کہا کہ آپ کا موقف درست ہے لیکن یہ ایک گھر کی مانند ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اعتزاز صاحب یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے،میں آئین اور قانون کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ نہیں رہا، یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنےکا حلف اٹھایا ہے۔
ممکن ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے: چیف جسٹس
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 2معزز سینیئر ججز نے اعتراض کیا ہے،ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے،اس عدالت کی روایت کے مطابق 2 سینیئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نہ کریں، آپ کےکیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بینچ آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا ہے، یہاں ہم مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد بینچ اُٹھ کر چلا گیا۔
سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، نیا 7رُکنی بینچ تشکیل،سماعت دوبارہ شروع
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےکیس کی سماعت کے لیے7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا، اعتراض کرنے والے دونوں جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس سردار طارق مسعود بینچ میں شامل نہیں۔
وقفےکے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ میں شامل جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ میں ایک درخواست گزار جواد ایس خواجہ کا رشتہ دار ہوں،کسی کو میری بینچ میں شمولیت پر اعتراض ہے تو ابھی بتادیں۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کسی کو آپ کی بینچ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اٹارنی جنرل نےبھی کہا کہ آپ کے بینچ کا حصہ ہونے پرکوئی اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موسم گرماکی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیےتمام فریقین دلائل مختصر رکھیں، چھٹیوں میں ہمارے بینچ دیگر رجسٹریز میں ہوتے ہیں۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نےکہا کہ ملک میں آرٹیکل 245 کا نفاذ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ 9 مئی کے واقعات کے ناقابل تردید شواہد ہیں، سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا بریگیڈیئر۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ میرے کیس میں درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض عائد کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست میں ملٹری کورٹس کے سوا بھی بہت سی استدعائیں ایک ساتھ کی گئی ہیں، کوشش کریں کہ ملٹری کورٹس کے سوا دیگر استدعا کو واپس لے لیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ملٹری کورٹس بنانے کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی ہم مقدمات میں ملٹری کورٹس کے معاملے پر فوکس کر رہے ہیں، ہم آپس میں مشاورت کر کے بتائیں گے کہ آپ کو الگ سننا ہے یا اسی کیس میں سنیں گے۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کا حوالہ دیاجس پر جسٹس یحییٰ آفریدی ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کا نوٹیفکیشن واپس ہو گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 15 مئی کو کور کمانڈر میٹنگ میں کہا گیا 9 مئی کے واقعات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، فارمیشن کانفرنس کا بیان بھی موجود ہے.
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ پریس ریلیز میں یہ کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے اثبات میں سرہلایا اور کہا کہ جی پریس ریلیز میں یہ ہی کہا گیا ہے بعدازاں انہوں ںے پریس ریلیز پڑھ کر سنا دی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ کیا کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کرسناؤں؟
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ درخواستوں کے ساتھ لگایا گیا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کور کمانڈر کانفرنس اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے پڑھ کر سنائے اور کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے، فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کرنل لیول کے اور اس کے اوپر کے افسران شریک ہوئے تھے، فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرنے کا فیصلہ خلاف آئین ہے، سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں بتائیں ایف آئی آر ہوئی؟ انسداد دہشت گردی عدالت میں کیا ہوا؟ ہمیں ایف آئی آر بتائیں کون سی دفعات لگائی گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں حقائق تک محدود رکھیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو یہ نہیں کہتا کہ چھوڑ دیا جائے، کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ سب بیانات میں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا؟
لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیئے اور کہا کہ ملک کی تمام ملٹری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں؟
لطیف کھوسہ نے کہا آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، فارمیشن کمانڈرز نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟ 7 جون کو فارمیشن کمانڈر کا اعلامیہ آیا، فارمیشن کمانڈر میں کرنل سے لے کر سب آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، فارمیشن کمانڈرز اعلامیے میں ٹرائل شروع کرنے کا کہا گیا ہے اس لیے عدالت سے حکم امتناع دینے کی استدعا کی۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ یہ اعلامیہ آپ نے کہاں سے لیا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ دونوں اعلامیے آئی ایس پی آر کی ویب سائیٹ سے لیے، دونوں اعلامیوں پر کابینہ نے بھی مہر ثبت کردی ہے تو فئیر ٹرائل کہاں ہوگا؟ 9 مئی کے واقعہ کی یقینا کوئی وضاحت نہیں، صرف جناح ہاؤس یا کور کمانڈر ہاؤس ہی نہیں میرے گھر پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اعلامیے بتا دئیے اب قانون بتادیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ لاہور، ملتان، راولپنڈی سے لوگوں کو ملٹری ٹرائل کے لیے حوالے کیا گیا، حملہ آوروں سے میری کوئی ہمدردی نہیں، مجھے ساتھی کہہ رہے ہیں کور کمانڈر ہاؤس کو جناح ہاؤس نہ کہیں، میں نے بھی جناح ہاؤس کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔
انہوں ںے کہا کہ مقدمات قتل، اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کیے گئے، 9 سے 10 ہزار افراد انہی مقدمات کے تحت گرفتار کیے گئے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات کا آرمی ایکٹ سے تعلق بنتا نہیں ہے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر ایف آئی آرز کے ناموں کے تذکرے پر دلچسپ مکالمہ سامنے آئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ناموں سے دلچسپی نہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 10 مئی کو پورے 4ہزار افراد کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا، جتنی بھی ایف آئی آرز درج ہوئیں ان میں آرمی ایکٹ کی دفعات کا کوئی حوالہ شامل نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جو شقیں لگائی گئی ہیں وہ ہیں کیا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ جو لوگ مقدمات میں نامزد ہوئے انہوں نے اسے چیلنج کیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ کون چیلنج کرسکتا ہے؟
جسٹس عائشہ نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ تھا کہ ایف آئی آرز میں لگائی گئی دفعات چیلنج ہو سکتی ہیں یا نہیں؟
لطیفہ کھوسہ نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے آرڈر کو نہیں مانتے، یہاں کہاں مانیں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے ان سے پوچھ لیا جائے کن دفعات کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل پوچھ لیں، ہمیں تو وہ کچھ بتاتے نہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ پتا نہیں لگ رہا کن دفعات کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں، یہ بتائیں! کتنے لوگوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ پورے ملک سے لوگ اٹھائے گیے آپ ججز بہترین ججز ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں، اس بات پر کمرۂ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایک عمل انہوں نے شروع کیا وہ کیسے شروع ہوا؟ آپ ہمیں قانونی سوالات کا قانونی جواب دیں۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے کس قانون کے تحت لوگ فوجی ٹرائل کے حوالے کیے؟ کیا انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے کوئی شواہد تھے جن کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا؟ کیا انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل کا فورم ہے یا نہیں؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر دہشت گردی کا پہلو ہو تو ایسا وہ کرسکتے ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ جن افراد کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھیجا گیا کیا انھوں نے اس اقدام کو چیلنج کیا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان افراد کا میں وکیل نہیں مجھے معلوم نہیں جب کہ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ان افراد تک کسی کی رسائی ہی نہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ مقدمات دائر ہوں بھی تو کس نے سننا ہے،سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانے جارہے تو ان عدالتوں کا حکم کون مانے گا؟
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ پہلے آرمی ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی کو پڑھیں، آرمی ایکٹ کی کس شق کے تحت ٹرائل کیا جارہا ہے یہ واضح نہیں، درخواست گزاروں نے بھی جو چیزیں لگائیں وہ نامکمل ہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم ملک اور 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ جاننا چاہتے ہیں مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجنے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ مقدمات ملٹری کورٹس بھیجنے کا فیصلہ تو عدالت کرے گی، ججز کو تو وجوہات کے ساتھ فیصلہ دینا ہوتا ہے، کیا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ان فیصلوں کو چیلنج نہیں کرےگا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتوں میں بھی نہ ملزم پیش ہوئے نہ ہی وکلا۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی کی عدالتیں آرمی ایکٹ میں آنے والوں کا ٹرائل کرسکتی ہیں؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمات میں تو میں پیش ہوتا رہا ہوں۔
جسٹس عائشہ نے ریمارکس دیئے کہ حوالگی تو ان کے اپنے افراد کی ہوسکتی ہے سویلینز کی نہیں۔
کوئی بھی کورٹ ہو ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے:چیف جسٹس
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چاہے سول کورٹ ہویا فوجی عدالت، ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، یہاں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے، وکلا کو ہراساں کیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، لطیف کھوسہ کےگھرپرحملہ ہوا، عزیربھنڈاری کو چند گھنٹےکے لیے غائب کیا گیا۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ کسی بھی وکیل کو ہراساں کرنا غلط ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرا طبقہ صحافی ہیں، صحافی آزاد نہیں ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے،کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں،کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے، اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہےگا،اگربینچ کا ایک بھی ممبر نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکے گی، تمام فریقین اپنے دلائل تحریری طورپرجمع کرادیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتارکیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا؟خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟ بچوں کو بھی گرفتارکیا گیا ہے؟ پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے، لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی،ان کی ذاتیات میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے، ان سے پوچھیں کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تمام گرفتار افرادکے درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن اور شہری کرامت علی سمیت دیگر نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کو چیلنج کیا تھا۔