وزیراعظم عمران خان نے کسی کی پارٹی نہ بننے کا بہترین موقف اختیار کیا ہے، استحصال پر مبنی موجودہ عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو

arif alvi

اسلام آباد۔ (ثاقب ابراہیم غوری سے ):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے موجودہ عالمی نظام کو ’’استحصالی‘‘ اور ’’مفادات پر مبنی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کسی کی پارٹی نہ بننے کا بہترین موقف اختیار کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو نجی ٹیلی ویژن چینل (سماء ) کو انٹرویو میں امریکی دعوت کے باوجود جمہوریت پر ورچوئل سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کیا۔

صدر مملکت نے افغانستان، عراق، شام اور بعض دیگر ممالک میں ہونے والی تباہی کا حوالہ دیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ وہ (امریکہ اور مغرب) اپنے ممالک میں کوئی جنگ نہیں چاہتے لیکن دوسرے خطوں بالخصوص اسلامی ممالک کو جنگوں اور تنازعات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو سراہتے ہوئے کہ پاکستان نے جوہری ڈیٹرنس حاصل کیا ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ استحصالی عالمی نظام جس میں ہندوستان جیسی بڑی معیشتوں کو (عالمی طاقتوں کی جانب سے) نوازا گیا ہے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر نے مزید کہا کہ جس طرح پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور حکومت سے تھی، یہ دوستی جاری و ساری رہ سکتی ہے۔ دوہرے معیار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ جسے افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران خواتین اور بچوں کے انسانی حقوق کی فکر نہیں تھی اس نے ملک سے نکلنے کے فوراً بعد انسانی حقوق کی فکر شروع کر دی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ذریعے ترقی اور خوشحالی حاصل کر کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں صف اول کی ریاست بن کر ابھر سکتا ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ بہت سے معاملات میں عدالتی فیصلوں میں تاخیر دیکھنے میں آتی ہے، ملک میں تیز رفتار انصاف کے نظام کے ساتھ ساتھ موثر پراسیکیوشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ چونکہ وہ ملک کے پانچ محتسب دفاتر کے فیصلوں کے بعد اپیلیں نمٹاتے ہیں، اس لیے وہ عام طور پر اس طرح کی اپیلوں کا ایک یا دو دن میں فیصلہ کرتے ہیں تاکہ جلد انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سوال پر کہ کیا عوام بدعنوان عناصر کے احتساب کے متعلق پی ٹی آئی کے بیانیے کو قبول کریں گے، صدر نے مثبت جواب دیا اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایسی مہمات اور بیانیے کے چیمپئن ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا وژن کوئی نیا خیال نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین سمیت دیگر رہنماوں نے 1990 کی دہائی میں پارٹی کے اندر اپنے مباحثوں اور مذاکروں کے دوران اس وژن کو تشکیل دیا اور اس پر اتفاق کیا۔ ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ مختلف ایشوز پر سوچ میں تبدیلی کو یو ٹرن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بدلی ہوئی صورتحال یا ماحول کی وجہ سے مقصد کے حصول کے لیے سمت بدلنا منطق ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقصد کے حصول کے لئے سمت بدلی جا سکتی ہے لیکن اصول نہیں۔ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ایسی مذہبی جماعتوں کو سیاسی دھارے میں لا کر اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے بڑی تعداد میں آرڈیننس جاری کئے جانے کے متعلق سوال پر صدر نے کہا کہ جب پارلیمنٹ اپنا کام نہیں کرے گی تو حکومت کو آرڈیننس لانا پڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر مملکت قانون اور آئین کے تحت پابند ہے کہ وہ حکومت کی خواہش پر آرڈیننس کا اجراء کرے تاہم موجودہ دور حکومت میں سابقہ ​​حکومتوں کے مقابلے میں کم آرڈیننس جاری کیے گئے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں