سپریم کورٹ کا عمران خان کو فوری رہاکرنے کاحکم،سپریم کورٹ کےممان قرار

یوتھ ویژن نیوز : سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کو کل دوبارہ اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری پرہائیکورٹ فیصلے کیخلاف درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نےسماعت کی، سپریم کورٹ کے بینچ میں جسٹس محمدعلی مظہر اورجسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کوعمران خان کوساڑھے 4بجے پیش کرنےکا حکم دے دیا اور کہا کہ کوئی سیاسی رہنما اور کارکن عدالت نہیں آئےگا۔ عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کو سخت سیکورٹی میں سپریم کورٹ لایا گیا ہے۔
عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اٹارنی جنرل ، آئی جی اسلام آباد بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے۔ کمرہ عدالت میں پہنچنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، آپ روسٹرم پر آجائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں آپکی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہورہے ہیں ہم ملک میں امن چاہتے ہیں یہ بات کی جارہی ہے کہ آپ کےکارکنان غصے میں باہر نکلے ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں بتائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ 9 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے جب ایک شخص کورٹ میں آتا ہے تو اس کا مطلب وہ سرنڈر کرتا ہے عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی تھی۔سپریم کورٹ نے عمران خان کو کل ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اسلام آبادہائیکورٹ کا فیصلہ ماننا ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے عمران خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان صاحب ابھی اس صورتحال پر کنٹرول کریں۔کل آپ کو ہائیکورٹ میں پیش ہونا ہوگا۔جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتاہے،تواس کا مطلب وہ کورٹ کے سامنے سرنڈرکرتا ہے، عمران خان کی گرفتاری کو ہم واپس کررہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جو ہوا اس میں عمران خان کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔ عمران خان صاحب ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں انکشاف کیا ہے پولیس کی جانب سے ان پر ڈنڈے برسائے گئے،پولیس کی جانب سے مجھ پر ایسے ڈنڈے برسائے گئے جیسے میں کوئی بہت بڑا مجرم ہوں، ایسے تو کسی کریمنل کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، مجھے پوری رات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جاتا رہا ، مجھے ہائیکورٹ کے اندر سے اغواء کیا گیا ۔مجھے عدالت نے کہا انتشار ہوا، مجھے عدالت سے گرفتار کیا گیا، مجھے گرفتار کرنے کیلئے کمانڈو ایکشن کیا گیا، مجھے ایسے گرفتار کیا گیا جیسے میں بڑا دہشتگرد ہوں،مجھے کبھی پولیس لائن اور کبھی کہیں لے کر پھرتے رہے،مجھے سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے،مجھے ہائیکورٹ سے اغوا کیا گیا،مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ میرا قصور کیا ہے؟مجھ پر دہشت گردی سمیت کئی مقدمات درج ہیں۔عمران خان نے کہا کہ دہشت گرد کی طرح مجھے پکڑ کر لے گئے،مجھے نیوز کا بھی نہیں بتایا گیا،میرا موبائل لے لیا گیا،مجھے پتا ہی نہیں ملک میں کیا ہوا ہے،میں حیران تھا صدمہ ہوا جیسے اچانک پکڑا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ خوش قسمت ہیں آپ سے بدتر دوسرے رہنماؤں کیساتھ ہوا۔
عمران خان نے کہا کہ نیب نے گرفتاری کے بعد مجھے نوٹس دکھایا،مجھے حقائق بتانے دیئے جائیں،جو میرے ساتھ ہوا اس کا ری ایکشن تو آئے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایسا نہ کہیں،میڈیا موجود ہے احتیاط سے بات کریں،آپ کا ایک ایک لفظ بہت اہم ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اس قانون کا سہارا لیا ہے جس کی ترمیم ہوئی ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ پر تشدد ہوا؟ عمران خان نے جواب دینے سے گریز کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ امن بحال ہوگا تو آئینی مشنیری کام کرسکے گی،عدالت کی خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کی مذمت کریں،عدالت ہر شہری کا تحفظ کرنے کیلئے ہے،ہم نے خان صاحب کہہ کہ حامد خان کو بلایا تھا،عدالت کو کچھ خدشات ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ سال سے پر امن رہنے کا پیغام دیا ہے۔ملک میں انتشار وہ چاہتے ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے،میں نے کبھی انتشارکی بات نہیں کی،مجھے کبھی پولیس لائنز اورکبھی کہیں اور لے کر پھرتے رہے،ایک پارٹی جو الیکشن چاہتی ہے وہ انتشار کیوں کر چاہے گی،کارکن پرامن رہیں ملک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن ہوں اور عدالت فیصلہ دے، 25 مئی کو انتشار کا علم ہوا تو ریلی ختم کردی تھی، الیکشن ریلی پر حملہ ہوا تو پھر بھی ریلی ختم کردی گئی ، میرے خلاف دہشتگردی سمیت 150 مقدمات بنائے گئے، سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ہو کیا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا الزام ہے کہ آپ کے ورکرز نے سڑکوں پر آکر یہ ماحول بنایا، ہمارا ملک غریب ہے، اپنے اثاثے بچا کر رکھنے ہیں، اپنے کارکنوں کو پر امن رہنے کا پیغام دیں، آپ اپنا مذمتی بیان عدالت میں ہی دیں گے۔
چیف جسٹس سے مکالمے کے دوران عمران خان نے کہا کہ میں تو گرفتار تھا مظاہروں کا ذمہ دار کیسے ہوگیا؟
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ یہاں میڈیا موجود ہے، پیغام دینا چاہتا ہوں، کارکن پرامن احتجاج کریں اور ملک کو نقصان نہ پہنچائیں، 27 سال سے پرامن رہنے کا پیغام دیا ہے اور کبھی انتشار کی بات ہے۔ سب کو کہتا ہوں کہ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔مجھے اگر آپ بنی گالا میں رکھنے کی اجازت دیں توبہتر ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپ کی سیکیورٹی عزیز ہے آپ کل تک ہماری تحویل ہیں۔سپریم کورٹ کی کسٹڈی سے اللہ کی برکت آئے گی۔ہمارے پاس قلم اور قانون کے علاوہ کچھ نہیں،10 لوگ آپ کیساتھ رہیں گے گپ شپ لگائیں پھر سو جایا کریں۔عدالت نے حکم دیتے ہوئے کہاکہ عمران خان کو فوری رہا نہیں کیا جائے گا، پولیس لائنز کے گیسٹ ہاؤس میں رکھا جائے گا،جبکہ عمران خان کو کل پولیس لائنز گیسٹ ہائوس سے اسلام آباد ہائی کورٹ پیش کیا جائے گا۔
عمران خان نے عدالت میں بیان دیا کہ میرے عدالت میں پیش ہونے کا معاملہ عوامی ہوجاتا ہے تو پھر کیسے لوگوں کو روک سکتا ہوں۔آئندہ عوام کو کورٹ نہیں لے کر آؤں گا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ کورٹ کے اندر سے کیسی کو گرفتار کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے کہا کہ جب عدالت کہے گی ہر کیس میں پیش ہوں گا،میں معذرت چاہتا ہوں جو کچھ ملک میں ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے عمران خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ سے درخواست ہے پلیز مخالفین سے مذاکرات کریں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کو فیملی سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے عمران خان کی سیکورٹی کے پیش نظر بنی گالہ منتقل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کچھ دیر بعد تحریری حکمنامہ جاری کرینگے۔
اس سے قبل پولیس عمران خان کو لیکرسپریم کورٹ پہنچ گئی تھی۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ججز گیٹ سے کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا۔ عمران خان کے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی کمرہ عدالت کو بند کردیا گیا تھا۔ عمران خان ہشاش بشاش تھے، عمران خان نے نیلے رنگ کے کپڑے او ویس کوٹ زیب تن کی ہوئی ہے، عمران خان پیدل چل کر کمرہ عدالت میں پہنچے۔آئی جی اسلام آباد بھی عمران خان کے ہمراہ تھے۔
عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھےاور پولیس کا انسداد دہشتگردی اسکواڈ عدالت کے اطراف موجود تھے،ڈی جی آپریشن بھی بھاری نفری کے ساتھ سپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی کا جائزہ لینے پہنچ گئے تھے۔سیکیورٹی نے غیرمتعلقہ افراد کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کوئی کارکن ساتھ نہیں آئے گا۔آج ہی حکم جاری کریں گے۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو بھی ساتھ ہی طلب کرلیا ہے۔
آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں اجلاس:
آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں پولیس لائن ہیڈ کوارٹر میں اجلاس ہوا۔ اجلاس میں اسلام آباد پولیس اور رینجرز حکام شامل ہوئے۔
ذرائع کے مطابق سیکیورٹی ڈویژن کے افسران اور رینجرز اہلکار عمران خان کو سپریم کورٹ لیکر جائیں گے۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھی سپریم کورٹ میں طلب کرلیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت:
دوران سماعت عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل میں کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کروانے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تھے۔ عمران خان بائیو میٹرک کروا رہے تھے کہ رینجرز نے ہلہ بول دیا۔ دروازے اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔ بائیو میٹرک کروانا عدالتی عمل کا حصہ ہے۔ عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پرتشدد ہوا۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ کوئی دوسرا تھا۔ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے۔ عمران خان کو کتنے افراد نے گرفتار کیا؟
عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ عمران خان کو 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90 افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے؟ ماضی میں عدالت میں توڑ پھوڑ کرنے پر وکلاء کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی گئی۔ کسی فرد نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا۔ گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینی چاہیے تھی۔ کیا آپ کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر تھی؟ عمران خان کو دوسرے کیس میں گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے۔ ہم ابھی اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں۔ ہم عدالت کی توقیر کو بحال کریں گے۔ میانوالی کی ڈسٹرکٹ کورٹ پر حملہ کیا گیا جو بدقسمتی ہے،عدالت پر حملے پر آج میرا دل دکھا ہے۔ ایسے کیسے ہورہا ہے اور کوئی نہیں روک رہا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟
وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔شعیب شاہین نے کہا کہ عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے ایک ملزم کو سپریم کورٹ پارکنگ سے گرفتار کیا تھا،سپریم کورٹ نے گرفتاری واپس کروائی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے نیب کی کارروائی کا جواب دیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم عدالت کی توقیر کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہے کہ وارنٹ گرفتاری پر قانون کے مطابق عمل کیا گیا یا نہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے وارنٹ گرفتاری کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ دیکھنا ہے کہ وارنٹ گرفتاری پر جس طرح عملدرآمد کیا گیا وہ درست تھا یا نہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیب کا نوٹس آتا ہے لیکن آپ کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوتا۔ ایسے نہیں ہوتا سب کو قانون پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب وارنٹ میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا؟
وکیل سلیمان صفدر نے بتایا کہ نوٹس میں ذاتی پیشی کا کہا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہر کوئی رول آف لاء کی بات کرتا ہے پر عملدرآمد کوئی نہیں کرتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیب کا نوٹس موصول ہونے کے بعد ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دی جاسکتی تھی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو نیب میں پیش ہونا چاہیے تھا یا ضمانت کرواتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے نیب کی کارروائی کا جواب دیا؟
وکیل سلیمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان کو ان کی رہائش گاہ یا راستے سے گرفتار کیا جاتا تو الگ بات تھی۔ عدالت کے اندر سے گرفتار کر کے کیا پیغام دیا گیا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہتے ہیں چیف جسٹس کو بلا کر پوچھیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ عمران خان کو 2 مارچ کو نوٹس ہوا؟ کیا عمران خان نے نیب کے نوٹس کا جواب دیا؟ کیا نوٹس وصولی پر عمران خان نیب کے سامنے پیش ہوئے؟
وکیل سلیمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ نیب نے انکوائری کو تفتیش میں تبدیل کیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ گرفتاری سے قبل کتنے نوٹسز بھیجے گئے؟
نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس بھیجا گیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کو ایک سے زائد نوٹس بھیجنے چاہئیں تھے۔ عمران خان کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا گیا؟ عمران خان کو ان کے گھر یا راستے میں کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟
نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ 8 مئی کو وزارت داخلہ کو وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیلئے لکھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جان بوجھ کو عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ عمران خان لاہور میں تھے تو وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیلئے وفاقی حکومت کو کیوں لکھا؟نیب نے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا؟ نیب پراسیکیوٹر صاحب معاملات کو پیچیدہ مت بنائیں۔ نیب نے پاکستان کا بہت نقصان کردیا ہے، نیب پراسیکیوٹر کا ایسا رویہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا۔ کیا گرفتاری کے وقت نیب کا کوئی شخص وہاں موجود تھا؟
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کا پتہ کرلیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس فورس نے عمران خان کو گرفتار کیا؟ ایسا فیصلہ دینا چاہیئے جس کا اطلاق سب پر ہو۔ معلوم کریں میانوالی میں ضلعی عدالت پر حملہ کس نے کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب کا نوٹس آتا ہے آپ کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوتا، ایسے نہیں ہوتا سب کو قانون پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کی خواہش ہے کہ بس دوسرے قانون پر عمل کرتے رہیں، وہ خود نہیں۔ کیا گرفتاری کے وقت کوئی نیب افسر موجود تھا؟ اس پر نیب حکام تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ گرفتاری کیلئے رینجرز نے اسلام آباد پولیس کی معاونت کی۔ آئی جی اسلام آباد نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رینجرز صرف وزارت داخلہ کی اجازت پر آسکتی ہے۔ وزارت داخلہ نے پولیس کی بجائے رینجرز سے عملدرآمد کرایا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیے کہ رینجرز اسلام آباد ہائیکورٹ کی سیکیورٹی کیلئے ہر پیشی پر موجود ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد سے خود کو الگ کرلیا ہے۔نیب اس سے قبل احاطہ عدالت سے اپنے افسران کو گرفتاری سے روک چکا ہے۔ ایس او پیز کے تحت احاطہ عدالت سے گرفتاری نہیں ہوسکتی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیلئے لاہور گئی۔ گرفتاری سے قبل رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ وکیل ملزم کو دینا لازم ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے؟
وکیل شعیب نے کہا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو بھجوایا تھا۔ نیب کا نوٹس غیر قانونی تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سب کی خواہش ہے کہ دوسرے قانون پر عمل کریں۔ واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا۔ گرفتاری کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے شیشے توڑے گئے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل میں کہا کہ عمران خان کو گرفتار کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ جب بھی گرفتاری کی کوشش کی جاتی تو عمران خان لوگ اکٹھے کرلیتے۔ جس نے بھی عدالت کے شیشے توڑے اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ عمران خان جس کمرے میں تھے اس کمرے کی کنڈی لگا دی گئی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر کمرہ بند ہو تو کنڈی کھٹکھٹائی جاتی ہے نہ کے دروازہ توڑا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان جوڈیشل ریلیف کیلئے عدالت آئے تھے۔انصاف کی فراہمی اور عدالت کی تکریم کیلئے اٹارنی جنرل سے سوال کریں گے۔ نیب نے گرفتاری کا سارا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کو ایک گھنٹے کے اندر سپریم کورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کردیا۔ چیف جسٹس نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ کوئی سیاسی کارکن عدالت نہیں آئے گا۔ آئی جی اسلام آباد کو بھی سپریم کورٹ طلب کرلیا گیا ہے۔