دنیا افغان عوام کی مشکلات کا احساس کرے، افغانستان کو انسانی بحران سے بچانے کی ضرورت ہے، بھارت بندوق کے زور ،طاقت کے استعمال اور ظلم کے ذریعے کشمیریوں کو نہیں دبا سکتا ،وزیراعظم عمران خان کا خطاب

imran khan adress


اسلام آباد۔ (واصب ابراہیم غوری سے):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا افغان عوام کی مشکلات کا احساس کرے، افغانستان کو انسانی بحران سے بچانے کی ضرورت ہے، بھارت بندوق کے زور ،طاقت کے استعمال اور ظلم کے ذریعے کشمیریوں کو نہیں دبا سکتا ، آر ایس ایس کے ہوتے ہوئے بھارت کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، پہلے بھی سرد جنگ سے دنیا کو بہت نقصان ہوا پاکستان اب کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا،

دنیا میں تجارتی مفادات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے درکار اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ہمیں تحقیق کے فروغ اور تھنک ٹینکس کے ذریعےایسا متفقہ بیانیہ سامنے لاناہو گا جو ہماری قوم کی ترجمانی کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں “ایک پر امن و خوشحال جنوبی ایشا” کے موضوع پر کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتےہوئے کیا۔وزیراعظم نے خطے بالخصوص افغانستان کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کی ہمیں بہت فکر ہے، وہاں پر خانہ جنگی کا خدشہ تھا۔

سویت جنگ میں 2 لاکھ افغان شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ پاکستان کو بھی پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑا تھا۔ افغانستان میں اس مرتبہ تباہی کاخدشہ تھا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ افغانستان کو انسانی بحران سے بچانا ہو گا۔ افغانستان کے اثاثے منجمد ہیں ، ان کابینکاری نظام مفلوج ہو چکاہے ، اس کے اثرات افغان عوام پر پڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا آئندہ ہفتے اجلاس ہو رہا ہے ، پاکستان پوری کوشش کررہا ہے کہ دنیا کو بتائے کہ وہ طالبان کو پسند کرے یا نہ کرے ، 4 کروڑ افغان عوام کا احساس کرے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر یہی حالات رہے تو ان پر کیا گزرے گی۔ امریکا کو بھی یہ سمجھناچاہیے کہ افغانستان کے اثاثے منجمد کرنے اور ان کی معیشت کے سکڑنے سے انسانی بحران پیدا ہوا تواس کا نقصان سب کو ہوگا اور پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔

ایران میں بھی اس وقت پناہ گزینوں کا بڑامسئلہ ہے۔ یورپ کو بھی پناہ گزینوں کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔ افغانستان کے عوام 40 سال سے ہر قسم کی مشکلات کاسامنا کررہے ہیں۔ پاکستان ان کی مشکلات کم کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ افغانستان میں امن ہمارے مستقبل کے لئے بہت اہم ہے۔ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے اور وسطی ایشیا کے تمام ممالک گوادر کے رستے تجارت کو فروغ دیناچاہتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔ آپس میں باہمی رابطے کےلئے افغانستان میں امن کی سخت ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے لئے ایک بڑا موقع ہے ۔ اس سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حالات سرد جنگ کی طرف جا رہے اور بلاکس بن رہے ہیں ، پاکستان کو یہ بلاکس بننے کو روکنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور ہمیں کسی بلاک کاحصہ نہیں بننا چاہیے۔

پہلے بھی سرد جنگ سے دنیا کو بہت نقصان ہوا۔پاکستان نہیں چاہتا کہ ہم پچھلی بار کی طرح اس بار بھی سرد جنگ کا شکارہوں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعے کے حل کے لئے بھی پاکستان نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا جسے دونوں ممالک نے سراہا ۔

وزیراعظم نے کہا کہ امریکا اور چین کےدرمیان سرد جنگ کے کےحوالے سے فاصلے بڑ ھ رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کریں۔ تجارت میں مقابلہ دنیا میں ہمیشہ رہا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں حالات اس طرف نہ جائیں جس طرح سوویت یونین ،امریکا اور مغربی ممالک کے درمیان رہے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں سب سے بڑامسئلہ کشمیر ہے جس پر ہم نے بھارت سے بات چیت کی پوری کوشش کی ، نریندر مودی کو ٹیلی فون بھی کیا لیکن وہ پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے لگے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں آرایس ایس کانظریہ رکھنے والی حکومت ہے اور ایک نظریئے کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے اس لئے مشکل ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کوئی بات چیت کریں۔ جو بھارت میں ہو رہا ہے وہ کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت کے عوام کے لئے بھی برا ہو رہا ہے اور یہ ہندوستان کے لوگوں کی بھی بدقسمتی ہے۔ بھارت میں 50 سے60 کروڑ افراد کو دوسرے درجے کے شہری سمجھا جا رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ کہیں اتنی بڑی آبادی کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے۔

اس کے بھارت کے معاشرے کے لئے بھی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت میں آر ایس ایس کا نظریہ پائیدار نہیں ہے ، آر ایس ایس کے ہوتے ہوئے بھارت کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، آر ایس ایس نے بھارت میں تقسیم کا نظریہ دیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹے کے لئے بہت اچھا کام کیا ہے۔ 2013 میں خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیاگیا۔

ہما لیہ کےگلیشیئرز قراقرم کے گلیشیئرز سے زیادہ تیز ی سے پگھل رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیاگیا ۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک میں شامل ہے۔ بھارت بھی اس سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو مل کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے عالمی راہنمائوں میں سنجیدگی نظر نہیں آ رہی، دنیا میں تجارتی مفادات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے درکار اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔پاکستان کا ماحول کے لئے مضر گیسوں کے اخراج میں حصہ انتہائی کم ہے ، بھارت بجلی کی بہت زیادہ پیداوار کوئلے سے حاصل کررہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے سنگین نتائج سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان نے اب تک اس حوالے سے جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں انہیں پوری دنیا میں سراہا گیا ہے۔ ہمارے خطے میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے تجارت بھی کم ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے بھی ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم بھارتی حکومت کے ساتھ منطق کے ساتھ بات کرکے اپنے مسائل کا حل نکال سکیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہماراسب سے بڑا مسئلہ کشمیر ہے ۔ کشمیر کامسئلہ بندوق اور بم سے نہیں مذاکرات سے حل ہو گا۔ بھارت بندوق کے زور ،طاقت کے استعمال اور ظلم کے ذریعے کشمیریوں کو دبانے کی کوشش کررہا ہے اس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔

بڑی آبادی کے خلاف کوئی نہیں جیت سکتا اگر اس طرح ہوسکتا تو امریکا کو افغانستان میں کامیابی حاصل ہو جاتی کیونکہ امریکا سے زیادہ کسی کے پاس طاقتور فوج نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت آئے گی جس کے ساتھ ہم بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ لاہورمیں بہت زیادہ آلودگی ہے لیکن دہلی سے لے کر پنجاب تک پورا علاقہ آلودگی کی لپیٹ میں ہے ۔

جب تک دونوں ممالک مل کر اقدامات نہیں کریں گے آلودگی پر قابو نہیں پایاجا سکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اس وقت تحقیق اور تھنک ٹینکس کی بہت ضرورت ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں تحقیق پر زیادہ کام ہوناچاہیے۔ سمندر پار پاکستانی ہمارا بہت بڑااثاثہ ہیں۔

ہمیں ان کی صلاحیتوں سے بھی استفادہ کرناچاہیے۔ ہمارے بڑے بڑے اسلامی سکالرز دنیا کے مختلف ممالک میں موجودہیں، ہمیں تھنک ٹینک بنا کر انہیں اکٹھا کرناچاہیے اور اتفاق رائے پیدا کرناچاہیے تاکہ ہمارے ملک ایسا بیانیہ باہر جائے جو ہماری قوم کی نمائندگی کرے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کی طرح کے تھنک ٹینکس کی بہت ضرورت ہے، 1960 کی دہائی میں ایک اعلیٰ معیار کے منصوبہ بندی کمیشن کے تحت ملک میں سب سے زیادہ اقتصادی ترقی ہوئی اور ملائیشیا جیسے ممالک پاکستان کو اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے تھے لیکن اس کے بعد اس ضمن میں ہماری صلاحیت کم ہو تی گئی۔ باہر کے آئیڈیاز کو اپنایا گیا جب کہ مقامی سطح پر تھنک ٹینکس پر توجہ نہیں دی گئی اور جب ملک میں تھنک ٹینکس ہی نہ ہوں تو پھر بیرونی رجحانات کے اسیربن جاتے ہیں۔ اس کے بعد میڈیا کو بھی آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ تحقیق کو فروغ دینا چاہیے۔

تحقیق کے بعد اپنا نکتہ نظر دنیا کے سامنے میڈیا کے ذریعے موثر طور پر اجاگر کیا جا سکتا ہےکیونکہ لوگ معاملات سے آگاہی کے بغیر تبصرے کرتے رہتے ہیں ۔اس سے عوام بھی گمراہ ہو تے ہیں اور ملک میں یکجہتی کی فضا قائم نہیں ہوتی اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ قومی مفاد کیا ہے ۔ امید ہے کہ غیر ملکی سکالرز کے آنے اور اس حوالے سے پیش کی جانے والی تجاویز سے اپنے آپ کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ بجائے اس کے دنیا ہمارے بارے میں کوئی رائے قائم کرے ، ہمیں خود اپنے نکتہ نظر کو واضح کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون کے بعد سے امریکا میں تھنک ٹینکس نے پاکستان پر تنقید کرنا شروع کر دی حالانکہ انہیں نہ تو حقائق کااور نہ ہی ہماری تاریخ اور ثقافت کا کوئی علم تھا ۔ وہ کسی کو انتہا پسند اور کسی کو بنیاد پرست قرار دیتے ہیں اورکبھی اسلامی بم کی بات کرتے ہیں۔یہ صرف اور صرف ہمارے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا ہے۔

ایک طبقہ وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ مغرب سے جو بھی آتاہے وہ سب ٹھیک ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہے جو مغرب سے آنے والی ہر چیزکو مسترد کردیتا ہے اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی حقیقی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا اور مختلف موقف اختیار کرتے رہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ باہر بیٹھ کر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سب سے خطرناک ملک ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک سوچا سمجھا موقف دنیاکے سامنے پیش کریں ۔

پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہو ا ہے اور اسلام کی حقیقت کیا ہے ، اس کو دنیا کے سامنے صحیح طور پر اجاگر کرنے کے لئے ہمیں تھنک ٹینکس کی ضرورت ہے۔ موجود حکومت نے رحمت للعالمین ﷺاتھارٹی قائم کی جس کے تحت اسلام کے لئے بہترین کام ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ امن و خوشحالی کاآپس میں گہرا تعلق ہے۔

جو جنگوں سے مسئلےحل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے تاریخ کاپتہ نہیں ہوتا اس کے اندازے غلط ہو جاتے ہیں۔ جنگوں سے مسئلے حل کرنے کی خواہش رکھنے والے اپنے ہتھیاروں کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہو تے ہیں۔ وہ انسانیت کا نہیں سوچتے، افغانستان اور ہمارے حالات سب کے سامنے ہیں۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے مشکلات سب کےسامنے ہیں ، آخری لمحہ تک پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مسائل بات چیت سے ہی حل ہوں۔افتتاحی سیشن سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خطاب کیا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں