1973 کےآئین کی گولڈن جوبلی پرآئین کےمعماروں کو خراج تحسین
تحریر : سید مجتبیٰ رضوان
آئین ریاست کی وہ روح ہے جس نے عوام اور ریاست کے درمیان غیر متزلزل تعلقات کو یقینی بنایا ہوا ہے۔1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی تقریب 8 اپریل 2023 سے شروع ہوگی.1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات کا مقصد آئین پاکستان کی اہمیت کو اجاگر اور آئین کے معماروں کو خراج تحسین پیش کرناہے آئین ہی وہ واحد دستاویز ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ آئین پاکستان کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک ساتھ جشن منایا جائے گا۔
وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب نے شرکاء کو وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے ٹاک شوز کی شروعات سمیت اٹھائے گئے دیگر اقدامات سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ گولڈن جوبلی کی تقریب 8 اپریل 2023 سے شروع ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ معلومات کو حتمی شکل دینا، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے کام اور تیاریوں کے بارے میں مختصر معلومات اور ان کی نشریات اور کوئز مقابلے` جیسی تمام چیزیں تیار کی جا رہی ہیں۔بیرونی پبلسٹی ونگ کی جانب سے تمام غیر ملکی سفارتی مشنوں اور سفارت خانوں میں تقریب کا اہتمام کرنے کے لیے سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ چیئر مین نادر نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ نادرا ایک موبائل ایپ متعارف کرا رہا ہے جس کا عنوان ہے “اپنے آئین کو جانیں”۔ چیئرمین نادرا نے کمیٹی کو بتایا کہ نادرا ایپ کو حتمی مراحل میں داخل ہے اور جلد منظر عام پر آ جائے گی۔ کنوینر قومی مشاورتی کمیٹی سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے آئینی یادگار کی اہمیت اور طویل مدتی استحکام کو یقینی بنانے کی ہدایت کی,ممبر ایڈوائزری کمیٹی فرحت اللہ بابر نے تجویز پیش کی کہ آئین کے نفاذ سے معاشرے کے ہر طبقے کی قربانیوں کی یاد منائی جائے۔ کنوینر ویمن پارلیمنٹری کاکس شاہدہ رحمانی نے کہا کہ خواتین کے حقوق جو 1973 کے آئین میں درج ہیں تمام تعلیمی سطح پر پڑھائے جائیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا خاص طور پر خواتین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو توجہ دینے دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
ممبر قومی اسمبلی مہناز ابکر عزیز نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ملک بھر میں اعلانیہ مقابلے منعقد ہوئے۔ ممبر قومی اسمبلی محترمہ آسیہ عظیم نے بھی فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف سپیشل ایجوکیشن کے ان اقدامات کو سراہا جو ان کے اعلانیہ پر مقابلے شروع کیے اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گولڈن جوبلی تقریبات کا مقصد آئین پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کا جشن منانے کے لیے جامع سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تین روزہ کنونشن منعقد ہوگا جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو مدعو کیا جائے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ آئین وہ دستاویز ہے جس نے ہم سب کو متحد رکھا ہوا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی عدالتی اصلاحات کے حوالے سے صحافی کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا تقدس برقرار رکھنا ہمارا بنیادی مقصد رہے گا، تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قابل مذمت ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ گولڈن جوبلی کی تقریب میں تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا جائے گا چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کا کہنا ہے کہ سینیٹ کی گولڈن جوبلی 1973 کے آئین کے معماروں کے اعتراف اور خراج تحسین کا ایک مناسب موقع ہے، جنہوں نے پاکستان کی تخلیق کے بنیادی مقاصد میں سے ایک کے مطابق سینیٹ کا تصور پیش کیا ،چیلنجوں کے باوجود پاکستان کا آئینی سفر پاکستان کے عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کی جمہوریت، انسانی اور اقلیتی حقوق، سماجی انصاف، مساوات، مساوات اور صوبائی خودمختاری کے اصولوں سے مسلسل وابستگی کی عکاسی کرتا ہے،سینیٹ بحیثیت ایک ادارہ فیڈریشن کو مضبوط کرنے، قومی ہم آہنگی اور اتحاد کو یقینی بنانے اور شراکتی وفاقیت کے ذریعے ایک جامع، نمائندہ اور متوازن پارلیمانی نظام کو فروغ دینے کے لیے ایک مستقل کوشش رہا ہے ۔ایوان بالا کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر کمیٹی آف ہول کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ سینیٹ کی 50 ویں سالگرہ کی یاد میں بلائے گئے اس خصوصی اجلاس میں آپ کا خیرمقدم کرنا ایک بڑے اعزاز اور خوشی کی بات ہے،ہمارے سابق اور موجودہ سینیٹرز، صوبائی قیادت اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات کا یہ منفرد اجتماع اطمینان بخش ہے،ملک کے طول و عرض سے عوامی نمائندوں اور قائدین کی موجودگی اس ہال کو منی پاکستان میں بدل دیتی ہے۔ یہ یادگاری اجلاس ہماری پارلیمانی، آئینی اور قومی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ان کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ایوان بالا کے 50 سال کے سنگ میل کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن اس کا مقصد واقعی ایک تاریخی اور راہ متعین کرنے والے سفر کا جشن منانا ہے جس کا آغاز پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے نصف صدی قبل کیا تھا۔یہ جاری سفر فیڈریشن کو مضبوط کرنے، قومی ہم آہنگی اور اتحاد کو یقینی بنانے اور شراکتی وفاقیت کے ذریعے ایک جامع، نمائندہ اور متوازن پارلیمانی نظام کو فروغ دینے کے لیے ایک مستقل کوشش رہا ہے۔ان کہنا تھا کہ آئین نہ صرف اس نسل کے لیے بنایا جاتا ہے جو اسے نافذ کرتی ہے بلکہ اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس میں لچک اور گنجائش ہونی چاہیے کہ آنے والی نسلیں اپنی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ترمیم کر سکیں۔ اس سے پاکستان کی آئینی ترقی کی وضاحت پہلی دستور ساز اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ قرارداد مقاصد سے ہوتی ہے۔نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد، ملک کے لیے لازمی تھا کہ وہ ایک ایسا آئین اپنائے جس میں تبدیلی کا وعدہ کیا گیا ہو تاکہ پرانے نظام سے وراثت میں ملنے والی تفاوتوں اور عدم مساوات کو دور کیا جا سکے۔پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 10 اگست 1947 کو کراچی میں ہوا۔ان کہنا تھا کہ اسمبلی کو آئین پاکستان کی تشکیل کا کام سونپا گیا۔ اس نے 12 مارچ 1949 کو قرار داد مقاصد منظور کی جس میں اصول وضع کیے گئے جو بعد میں پاکستان کے آئین کا اہم حصہ بن گئے اور اب بھی اس کی تمہید کے طور پر کام کرتے ہیں۔چئیرمین سینٹ نے کہا کہ دوسری آئین ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا، جسے 23 مارچ 1956 کو نافذ کیا گیا، جس میں ایک ایوانی مقننہ کے ساتھ پارلیمانی طرز حکومت فراہم کیا گیا۔ اس طرح قائم ہونے والی قومی اسمبلی کا پہلی بار 25 مارچ 1956 کو اجلاس ہوا۔ 1956 کے آئین کے بعد 1962 کے آئین کی پیروی کی گئی، جس نے ایک ایوانی مقننہ کے ساتھ دوبارہ صدارتی طرز حکومت فراہم کیا۔انہوں نے کہا کہ1970 کی اسمبلی نے 1973 کا آئین تیار کیا جو 10 اپریل کو منظور کیا گیا تھا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل دو ایوانی مقننہ کے ساتھ پارلیمانی طرز حکومت فراہم کی گئی تھی۔ان کہنا تھا کہ سینیٹ کی گولڈن جوبلی 1973 کے آئین کے معماروں کے اعتراف اور خراج تحسین کا ایک مناسب موقع ہے جنہوں نے پاکستان کی تخلیق کے بنیادی مقاصد میں سے ایک کے مطابق سینیٹ کا تصور پیش کیا ۔مساوات اور انصاف پر مبنی ہر ایک کے حقوق کا تحفظ یہ 1973 کا آئین تھا جس نے ‘اکثریت کے ظلم’ کو ختم کیا، وفاقی پارلیمنٹ میں وفاقی اکائیوں کی جامع، مساوی اور منصفانہ نمائندگی کے ذریعے صوبائی خودمختاری کی راہ ہموار کی۔انہوں نے کہا کہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چیلنجوں کے باوجود پاکستان کا آئینی سفر پاکستان کے عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کی جمہوریت، انسانی اور اقلیتی حقوق، سماجی انصاف، مساوات، مساوات اور صوبائی خودمختاری کے اصولوں سے مسلسل وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔
ان کہنا تھا کہ قانون سازی،نگرانی اور نمائندہ عمل میں وفاق کی اکائیوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کسی بھی تعطل سے قوم کی رہنمائی کے لیے سینیٹ کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔آئین پاکستان کواسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء کہاجاتا ہے۔ مارشل لاء ہٹائے جانے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کام نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ اس دور میں قائم کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہونا چاہیے یا صدارتی؟ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر بھی مختلف خیالات تھے۔ آئینی کمیٹی کو رپورٹ تیار کرنے میں آٹھ ماہ لگ گئے اور بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔ابھی آئین پاکستان کو نافذ ہوئے ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ 4 مئی 1974ء کو پہلی ترمیم کی گئی جس میں پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم 7ستمبر 1974ء، تیسری 18 فروری 1975ء،چوتھی21 نومبر1975ء، پانچویں 5ستمبر1976،چھٹی 22 دسمبر 1976ء اور ساتویں ترمیم 1977ء میں کی گئی۔ پھرمشہور زمانہ آٹھویں ترمیم 1985ء میں نافذ العمل ہوئی جس کی رُو سے حکومتِ پاکستان پارلیمانی طرزِ حکومت سے جزوی صدارتی طرزِ حکومت میں تبدیل ہو گئی اور صدر پاکستان کو بھرپور آئینی قوت اورکئی اضافی اختیارات میسر آگئے۔ یہ اختیارات ذیلی حصہ 2 (ب) کے آرٹیکل 58 میں شامل ہوئے جس کے تحت صدر پاکستان کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل‘ وزیر اعظم اور کابینہ کو فارغ کر سکتے تھے۔ آٹھویں ترمیم دراصل غیر جماعتی بنیادوں پر منتخَب پارلیمان اور اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق کے مابین ایک ”ڈیل‘‘ تھی۔
نویں ‘دسویں ‘گیارہویں اور بارہویں ترمیم کے بعد جب سیاستدانوں کا ”وار‘‘ چلا تو تیرھویں ترمیم لائی گئی۔ 1997ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے آرٹیکل اٹھاون 2 ب (58-2 B) میں یہ ترمیم منظور کی اور صدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیلِ قومی اسمبلی ختم کر دیئے گئے۔ اس ترمیم کے چند ہی ماہ بعد چودہویں ترمیم منظور کی گئی جس کی رُو سے ارکان قومی اسمبلی کو سختی سے اس بات کا پابند بنا دیا گیا کہ وہ اپنی متعلقہ سیاسی جماعت کے کسی بھی فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے اور اگر وہ ایسا کرتے پائے گئے تو انھیں تادیبی کارروائی، جس میں رکنیت کی معطلی شامل تھی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس ترمیم نے وزیر اعظم کے عہدے پر موجود تمام احتسابی نکات کا خاتمہ کر دیا۔ سترھویں ترمیم دسمبر 2003ء میں کی گئی جو تقریباً ایک سال تک اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان بحث مباحثے اور کئی مواقع پر تلخیوں کے بعد منظور کی گئی تھی۔ تیرھویں ترمیم میں کی گئی تقریباً تمام ترامیم واپس لے لی گئیں۔
اب تک کی سب سے زیادہ متنازعہ ترمیم اٹھارھویں ترمیم کہلائی جا رہی ہے۔ 8 اپریل 2010ء کو قومی اسمبلی نے اسے منظور کیا۔ اٹھارھویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیئے۔ قائد ایوان ہونے کی وجہ سے زیادہ اختیارات وزیراعظم کے حصے میں آگئے جبکہ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دے دیئے گئے۔
آئین پاکستان میں اتنی ترامیم کے بعد بھی اسے1973ء کا آئین کہا جاتا ہے؛ 17اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی نے حکومت اور اپوزیشن کے 25ارکان پر مشتمل آئین ساز کمیٹی تشکیل دی جس کے چیئر مین محمود علی قصوری تھے۔ اپوزیشن کی جانب سے دیگر ارکان کے علاوہ پروفیسر غفور احمد اور سردار شیربازخان مزاری بھی کمیٹی میں شامل کئے گئے۔ 1973ء کے آئین کے ڈرافٹ کو 20اکتوبر1972ء کو حتمی شکل دیکر قومی اسمبلی کے حوالے کیا گیا ۔10اپریل1973ء کو اسمبلی میں منظوری دی گئی ،12اپریل کو صدر نے توثیق کی اور 14اگست 1973ء کو نافذ کیا گیا آئینی کمیٹی 1973 کے تاریخی آئین کا دستاویز تیار کرنے والی آئینی کمیٹی میں تین خواتین ارکان نسیم جہاں بیگم ,جینیفر قاضی اور بیگم اشرف عباسی شامل ہیں: ۔آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے ہیں۔ مارشل لاء کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لیے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972ء کو 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔ ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد ملک میں ایک نیا آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام۔ اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر مختلف خیالات تھے۔ آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے میں صرف کیے، بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔ آئین 1973 اہم خصوصیات..
پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہو گا وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوگا اور اسے اکثریتی جماعت منتخب کرے گی۔
اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور صدر اور وزیر اعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت ہونا ضروری ہے۔
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔
عوام کو مواقع دیے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق بسر کریں۔
عدلیہ آزاد ہوگی۔ عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔
قرآن مجید کی اغلاط سے پاک طباعت کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔
عصمت فروشی، جوا، سود اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے گی۔
عربی زبان کو فروغ دیا جائے گا طلبہ وطالبات کے آٹھویں جماعت تک عربی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔
آئین کی رو سے مسلمان سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو ایک مانے، آسمانی کتابوں پر ایمان لائے، فرشتوں، یوم آخرت اور انبیائے کرام پر ایمان رکھے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کرے۔ جو شخص ختم نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا منکر ہوگا وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔..سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات کے انعقاد کا مقصد پاکستان کی عوام میں آئین کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ آئین ہی وہ واحد دستاویز ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ آئین پاکستان کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک ساتھ جشن منایا جائے گا۔آئین ریاست کی وہ روح ہے جس نے عوام اور ریاست کے درمیان غیر متزلزل تعلقات کو یقینی بنایا ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے قومی اسمبلی کی مشاورتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب نے شرکاء کو وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے ٹاک شوز کی شروعات سمیت اٹھائے گئے دیگر اقدامات سے آگاہ کیا۔انکا کہنا ہے کہ گولڈن جوبلی کی تقریب 8 اپریل 2023 سے شروع ہوگی۔ معلومات کو حتمی شکل دینا، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے کام اور تیاریوں کے بارے میں مختصر معلومات اور ان کی نشریات اور کوئز مقابلے اور ٹاک شو جیسی تمام چیزیں تیار کی جا رہی ہیں۔محترمہ مریم اورنگزیب نے بتایا کہ بیرونی پبلسٹی ونگ کی جانب سے تمام غیر ملکی سفارتی مشنوں اور سفارت خانوں میں تقریب کا اہتمام کرنے کے لیے سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ چیئر مین نادرا نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ نادرا ایک موبائل ایپ متعارف کرا رہا ہے جس کا عنوان ہے “اپنے آئین کو جانیں”۔ نادرا ایپ کو حتمی مراحل میں داخل ہے اور یکم اپریل تک تیار ہو جائے گی۔ کنوینر قومی مشاورتی کمیٹی سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے آئینی یادگار کی اہمیت اور طویل مدتی استحکام کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے آئین پاکستان کی یادگار بنانے کے لیے ڈی چوک کے مقام پر غور کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تقریبات صوبائی اور وفاقی سطح پر منعقد کی جائیں گی۔ انہوں نے وزارت اطلاعات و نشریات کے اقدامات کو بھی سراہا۔ ممبر ایڈوائزری کمیٹی فرحت اللہ بابر نے تجویز پیش کی کہ آئین کے نفاذ سے معاشرے کے ہر طبقے کی قربانیوں کی یاد منائی جائے۔ کنوینر ویمن پارلیمنٹری کاکس شاہدہ رحمانی نے کہا کہ خواتین کے حقوق جو 1973 کے آئین میں درج ہیں تمام تعلیمی سطح پر پڑھائے جائیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا خاص طور پر خواتین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو توجہ دینے دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ممبر قومی اسمبلی مہناز ابکر عزیز نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ملک بھر میں اعلانیہ مقابلے منعقد ہوئے۔ ممبر قومی اسمبلی محترمہ آسیہ عظیم نے بھی فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف سپیشل ایجوکیشن کے ان اقدامات کو سراہا جو ان کے اعلانیہ پر مقابلے شروع کیے اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے نے کہا کہ گولڈن جوبلی تقریبات کا مقصد آئین پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ آئین پاکستان کا جشن منانے کے لیے جامع سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تین روزہ کنونشن منعقد ہوگا جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو مدعو کیا جائے گا, آئین وہ دستاویز ہے جس نے ہم سب کو متحد رکھا ہوا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی عدالتی اصلاحات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا تقدس برقرار رکھنا ہمارا بنیادی مقصد رہے گا،