جنوبی ایشیا میں تصادم خطے میں استحکام کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا سمندر اور سمندر کا قانون پر بحث کے دوران اظہار خیال
اقوام متحدہ۔ (ثاقب ابراہیم غوری سے ):پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ جیو سٹریٹجک مسابقت اور بحر ہند کی بعض ریاستوں کی طرف سے فوجی تسلط کے حصول کے عزائم نے باہمی تعاون کی اس کی صلاحیت کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ابحار اور سمندر کا قانون پر بحث کے دوران خبردار کیا کہ بین القوامی برادری کو اس حقیقت سے آگاہی کی ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا میں کوئی بھی فوجی تصادم خطے کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جو عالمی تجارت اور عالمی امن اور سلامتی کے لیے بہت اہم ہے ۔ انہوں نے عالمی تجارت کے لیےاہم مقام کے طور پر بحر ہند کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی سمندری ٹریفک کی آماجگاہ ہے جس میں دنیا کے کنٹینرائزڈ کارگو کا نصف، اس کے بلک کارگو کا ایک تہائی اور اس کے تیل کی ترسیل کا دو تہائی حصہ شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھرتے ہوئے مسائل، سمندری قزاقی اور علاقائی آبی تنازعات سمیت ساحلی اور سمندری وسائل پر عالمی ماحولیاتی دباؤ پالیسی سازوں کے لیے ابھی تک کافی چیلنجز کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے جنوبی بحیرہ چین کے مسائل کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کا موقف ہے کہ تنازعات کا حل متعلقہ ممالک کے درمیان ہو اور بیرونی ممالک کو مذاکرات اور اس عمل کا احترام کرنا چاہیے جس کے ذریعے متعلقہ فریق تنازعات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بحر ہند کے سکیورٹی فریم ورک میں ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے جس میں بحری قزاقی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ اور منشیات کی سمگلنگ بھی شامل ہے لہذا سمندروں میں حکمرانی کو بہتر بنانا اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانا بین الاقوامی امن و سلامتی، باہمی ربط، بلیو اکانومی اور آزاد تجارت کے لیے ضروری ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کنونشن ( یو این سی ایل او ایس )کے بین الاقوامی معاہدے کی منطوری اور اس سے منسلک گورننگ اداروں نے تمام بنی نوع انسان کے لیے سمندری وسائل کے منصفانہ استعمال کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یو این سی ایل او ایس کے تحت قائم تین اداروں بین الاقوامی ٹریبونل فار دی لا آف سی، کمیشن آن دی لِمٹس آف دی کانٹی نینٹل شیلف (سی ایل سی ایس) اور انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی (آئی ایس اے) کے اقدامات بھی بہت اہمیت کے حامل ہے۔
انہوں نے تمام وفود پر زور دیا کہ وہ اگلے سیشن کے دوران ترقی پسند نقطہ نظر اپنائیں اور یہ ضروری ہے کہ اچھے معیار کے نتائج کے حصول پر توجہ مرکوز کی جائے جو ایک متفقہ حل تک پہنچنے کے قابل بنائے۔ انہوں نے زور یا کہ عالمی معیشت کا نظریہ سمندروں اور سمندروں کو اقتصادی ترقی کے محرک کے طور پر تسلیم کرتا ہے جس میں جدت اور نمو کی بڑی صلاحیت ہے۔اس میں پاکستان کی دلچسپی کی وجہ اس کی ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ،290مربع کلومیٹر پر مشتمل خصوصی اقتصادی زون کراچی کی بندرگاہ اور حال ہی میں تعمیر کردہ گوادر بندرگاہ ہے ۔
پاکستان کے مندوب منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان سمندروں کے تحفظ سے متعلق پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لیے پرعزم ہے اور باہمی مفاد کے اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستان خطے اور دنیا بھر کے دیگر دوست ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے