سپریم کورٹ ،شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی
اسلام آباد۔ (واصب ابراہیم غوری سے ):سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی ۔منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے دائر درخواستوں پر سماعت کی ۔
دوران سماعت شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے اپنے موکل کیخلاف ریفرنسز کی تفصیل پیش کر تے ہوئے موقف اپنایا کہ پہلے ریفرنس میں میرے موکل پر سرکاری رہائش پر حد سے زیادہ اخراجات کا الزام لگایا گیا،پہلے ریفرنس پر سولہ جولائی 2016 ء کو میرے موکل کو شوکاز نوٹس جاری ہوا،21 جولائی 2018 ءکو پہلے ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی،31 جولائی کو تقریر والے معاملہ پر میرے موکل کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا،فیض آباد دھرنے کیس کے حکم ناموں پر میرے موکل کیخلاف دو ریفرنسز دائر ہوئے،فیض آباددھرنا کیس میں میرے موکل نے ٹی ایل پی دھرنے کو پریڈ گرائونڈ منتقل کرنے کا حکم دیا،دھرنے میں اعلی عدلیہ کے ججز کیخلاف توہین آمیز زبان استعمال ہوئی، شوکت صدیقی نے ٹی ایل پی کیساتھ معاہدہ سے متعلق وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا، شوکت صدیقی نے اٹارنی جنرل کو نوٹس بھی جاری کیا تھا۔
اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان سوال کیا کہ حامد خان آپ کے موکل نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں لکھا کہ تحریک لبیک بھی مدعی تھی،تحریک لبیک کا مدعا کیا تھا، یعنی پٹیشن دھرنے کے دوران ہائیکورٹ میں دائر کی گئی، فیض آباد دھرنا کیس میں 27 نومبر 2017ء کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ،حامد خان صاحب آپ نے کہا کہ یہ اہم فیصلہ تھا جس میں فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے معاہدے کا ذکر بھی ہے،جس پر حامد خان نے موقف اپنایا کہ تحریک لبیک کی شکایت تھی کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم واپس لی جائے، اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی نے حاضر سروس افسران پر آبزرویشنز بغیر نوٹس کے دیں،کس طرح شوکت صدیقی نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ؟۔
اس موقع پر جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ جب افسران کے خلاف شکایت نہیں تھی تو جج نے ازخود نوٹس کیسے لیا؟ کیا ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا؟ جس پر حامد خان نے موقف اپنایا کہ اگر کوئی غیر قانونی بات سامنے آئے تو عدالت اس پر نوٹس لے سکتی ہے،اس دوران جسٹس سردار طارق نے حامد خان سے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی نے حکم میں کہا کہ جو عمل کیا گیا وہ غیر قانونی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ جس فیصلے کے ساتھ تعلق جوڑ رہے ہیں ان پر سپریم جوڈیشل کونسل نے دو نوٹس جاری کیے، سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹسز پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہمارے فیصلوں کو جتنا چاہیں تنقید کا نشانہ بنائیں،فیصلوں کے پیچھے جا کر ججز پر الزامات نہ لگائیں، ججز بول نہیں سکتے،ان کا کوئی پی آر او بھی نہیں ہوتا، آپ کے موکل نےتقریر عدلیہ کے خلاف کی، آپ کے موکل نے تقریر میں حدود سے تجاوز کیا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ تقریر کرنے پر شوکت صدیقی کو شوکاز نوٹس آیا، تقریر نہ ہوتی تو شوکاز نوٹس نہ ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ جج کی بار یا پبلک فورم پر تقریر حدود و قیود میں ہوتی ہیں،جج کا کام نہیں کہ اداروں یا حکومت کی تحقیر شروع کر دے، سپریم کورٹ کا جج ملک کی خارجہ پالیسی پر تقریر نہیں کر سکتا،بطور جج ایسی تقاریر کرنا ہمارا کام نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ شوکت صدیقی نے بطور ہائیکورٹ جج جو تقریر کی وہ مس کنڈکٹ ہے۔
اس دوران حامد خان نے موقف اپنایا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے مارشل لاء کے خلاف تقاریر کی تھیں، وکلاء تحریک کے دوران سابق چیف جسٹس نے بھی بار کونسلز میں جا کر تقاریر کیں ۔ جس پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے ادارے کی تضحیک نہیں کی تھی۔ وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین کسی جج کو نکالنے سے پہلے انکوائری لازم قرار دیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت الزامات کی انکوائری ضروری ہے،بغیر انکوائری جج کو نکالنے کی مثال بن گئی تو کسی بھی جج کو کسی بھی بنیاد پر کبھی بھی برطرف کر دیا جائے گا۔ عدالت عظمی نے معاملہ پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی ۔ شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان آئندہ سماعت پر بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔