اردو کی چاشنی
تحریر : عروبہ عدنان
اللہ نے انسان کو اشرف المخلوق کہا ہے اور اس کی وجہ اسکا باشعور ہونا اور اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار زبان کے ذریعے کرنا ہے ۔ زبان سماجی و ثقافتی روایات واقدار کا خزانہ ہوتی ہے ۔ یہ ماحول و وجدان کے ملاپ سے وجود میں آئ ۔ کسی بھی قوم کی پہچان ،اسکا تشخص اسکی زبان ہوتی ہے ۔ دنیا میں بہت سی زبانیں بولی جاتی مگر کچھ زبانیں ایسی ہیں جو آسان ،عام فہم ہونے کے باعث کسی خاص علاقے یا ملک تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ مقبولِ عام ہو کر بین الاقوامی زبان کہلائ جانے لگتی ہیں یعنی وہ زبانیں جو مختلف ملکوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں عالمگیر زبانیں کہلاتی ہیں مثلاً انگلش ،عربی ،جرمن،چینی اور اردو ۔ یہ ایسی زبانیں ہیں جو تقریباً دنیا بھر میں بولی اور سمجھی جاتیں ہیں اور رابطے کی زبان کہلائ جاتی ہیں ۔ اردو زبان اپنے اندر بہت وسعت لئے ہوئے ہے ۔ یہ مختلف زبانوں کا حسین امتزاج ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاک و ہند میں اردو کا وجود بہت سی زبانوں کے ملاپ سے وقوع پزیر ہوا ۔ اسی لیے اردو کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے ۔ اردو زبان میں تہذیب و محبت کی ایسی مٹھاس و چاشنی بھری ہے کہ سننے والا اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت ساری زبانوں کا حسین سنگم موجود ہے اسی لیے سننے والے کو اردو زبان نامانوس معلوم نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ فارسی ,،ترکی ،عربی اور ہندی بولنے والے جلد اسے سمجھنے اور بولنے لگتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ اب تو ہندی سرے سے بولی ہی نہیں جاتی ۔ ہند میں فقط اردو ہی ہے جو بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ بس دو چار الفاظ کی آمیزش کر کے ہندوستان میں دعوی کیا جاتا ہے کہ ان کی بولی” ہندی” ہے ۔ ہندی تو دراصل سنسکرت زبان ہے جس کا وجود اب انڈیا کی پرانی کتابوں کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا ۔ ۔۔۔ یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اردو ہر دلعزیز و مقبول زبان بن گئ ہے اور یہ زبان بڑی تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے آج اس مقام تک پہنچی گئ ہے کہ اس کو جاننے ،بولنے اور سمجھنے والے دنیا بھر میں موجود ہے ۔اردو نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اپنے اس وجود تک آنے کے لیے ۔۔۔ فہم و ادراک کے نئے و پرانے خزانے دریافت ہوئے اور انسانی خیالات و احساسات کی جیتی جاگتی آواز اردو زبان برصغیر میں معرضِ وجود میں آئ ۔۔۔۔۔
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کاچشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباںآئی
روش صدیقی