اعتماد کے ووٹ پر قانون کیا کہتا ہے؟
پنجاب میں سیاسی صورت حال ایک نئے تنازعے کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ صوبے کے گورنر محمد بلیغ الرحمن نے وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہی کو بدھ 21 دسمبر کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تھی۔ جبکہ دوسری طرف سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر کی ایڈوائس پر چیف منسٹر کے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے خصوصی اجلاس بلانے سے انکار کر دیا ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کا کہناہے کہ ’گورنر کا ایسے وقت میں اجلاس بلانا غیرقانونی ہے جب پہلے سے ہی اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو۔‘
سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر اپنی جگہ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں ملک کا آئین اور قانون کیا کہتا ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر اور ماہر قانون شاہد حامد کہتے ہیں کہ ’گورنر کا وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرنا ایک خالصتاً آئینی معاملہ ہے۔ یہ آئین کی شق 30 کی ذیلی شق 7 میں لکھا ہے کہ گورنر ایک خصوصی اجلاس کے ذریعے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت دے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کے کل 245 رولز آف بزنس ہیں۔ میری نظر سے کوئی ایک بھی ایسی شق نہیں گزری یا شائد میرا علم کمزور ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ اگر گورنر اعتماد کے ووٹ کے لیے خصوصی اجلاس بلائے اور پہلے اجلاس چل رہا ہو تو خصوصی اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔‘
شاہد حامد نے مزید کہا کہ ’اگر ایسی کوئی قدغن ہوتی تو اس کا ذکر اسی آئینی شق یا پھر رولز آف بزنس میں موجود ہونا تھا، کیونکہ یہ ایک عام سا معاملہ ہے کہ اگر کسی وزیراعلٰی کو پتا ہو کہ اسے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جا سکتا ہے تو وہ سپیکر کی ملی بھگت سے لمبے عرصے تک پہلے ہی اجلاس کو لمبا کر سکتا ہے، پھر تو آئین نے جو خصوصی اجلاس بلانے کا اختیار صرف گورنر کو دیا ہے بالکل بے معنی ہو جاتا ہے۔‘
رولز کے مطابق اجلاس گورنر ہی طلب کرتے ہیں اور اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن سپیکر صوبائی اسمبلی نے جاری کرنا ہوتا ہے۔ موجود صورت حال میں سپیکر نے اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس موضوع پر ماہر قانون بیرسٹر احمد پنسوٹا ایک مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پنجاب اسمبلی کے رولز آف بزنس کو دیکھیں تو مکمل طور پر سپیکر کے اختیارات کا احاطہ کرتے ہیں اور ان رولز میں یہ واضع لکھا ہے کہ اگر اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو وزیراعلٰی کے خلاف تحریک عدم پیش نہیں کی جا سکتی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے اسمبلی رولز کیا کہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے رولز خاموش ہیں لہذا جو رولز عدم اعتماد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں ان کو یہاں بطور نظیر استعمال کیا جائے گا۔ کیونکہ اجلاس جاری ہے اس کا ایجنڈا بھی موجود ہے اور ایجنڈے پر اعتماد کا ووٹ موجود ہی نہیں ہے۔‘
تاہم شاہد حامد اس بات اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عدم اعتماد اسمبلی رولز کا معاملہ ہے جبکہ اعتماد کا ووٹ آئینی مسئلہ ہے۔ دونوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔‘
ان سے جب یہ سوال کیا گیا اگر سپیکر اجلاس نہیں بلاتے تو آگے کیا ہو گا، کیا معاملہ عدالت جائے گا؟ تو ان کا کہنا تھا ’میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی عدالتی معاملہ ہے کیونکہ اگر جو دن اور وقت گورنر نے وزیراعلٰی کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کا طے کیا ہے اگر اس وقت وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو وہ خود بخود وزیراعلٰی نہیں رہیں گے۔ کیونکہ یہی تصور ہو گا کہ وزیراعلٰی کے پاس عددی برتری نہیں ہے۔